کانگریس و بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی و شکست کے اسباب ماضی ، حال اور مستقبل !
نور محمد خان ممبئی
15 اگست 1947کو ملک أزاد ہونے کے بعد 30جنوری 1948کو أر ایس ایس کے ایک رکن ناتھو رام گوڈسے نے بابائے قوم مہاتما گاندھی کو گولی مار کر قتل کردیا نیز جنوری 1950میں آئین وقوانین نافذ ہوا اور دستور نے جمہوریت کی بقا کے لیے عوام کو انتخابات کے ذریعے حکومتيں تشکیل دینے کے لیے حقوق دیے تاکہ عوام کے مسائل اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب برقرار رہ سکے تاکہ ملک مزید ترقیاتی منازل طے ہوں۔چنانچہ اسی بات کے مدنظر وطن عزیز میں پہلا پارلیمانی انتخابات 1952-1951 میں عمل میں آیا اور کل 53 سیاسی پارٹیوں نے 489 نشستوں میں حصہ لیا جس میں انڈین نیشنل کانگریس کو 364 نشستوں پر کامیابی ملی ، جبکہ جن سنگھ نے دو سے تین نشستوں پر کامیابی حاصل کی در اصل جن سنگھ کی کامیابی کے پیچھے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قتل نے ناتھورام کو ہیرو بنا دیا تھا ۔اس وقت آرایس ایس پر پابندی عائد کرنے کے لئے مرکزی حکومت کے وزیر داخلہ کی جانب سے نشرواشاعت میں یہ اظہار خیال کیا گیا کہ ملک میں نفرت اور تشدد پھیلانے والی طاقتیں جو ملک کی آزادی کے تقدس کو پامال کرسکتی ہیں ، ایسی طاقتوں کو جڑ سے نیست و نابود کرنے کے لئے اپنے عہد پر قائم ہے اسی کے مدنظر آر ایس ایس پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ لیا ۔1948 فروری میں ممنوعہ قرار دیتے ہوئے حکومت نے پابندی عائد کردی جو 1949 جولائی تک برقرار رہی۔ آر ایس ایس پر پابندی عائد ہونے کے بعد ممنوعہ تنظیم کے رکن حکومت کی چاپلوسی کرتے رہے تاکہ تنظیم پر سے پابندی ختم ہوجائے وہ دن بھی قریب آگیا جب حکومت نے اس شرط پر منظوری دی کہ آر ایس ایس اپنے قوانين بنائے اور جاری کرے جس میں جمہوری اصولوں کے مطابق انتخاب ہوں اور تنظيم تہذیبی و ثقافتی عنوان پر کام کرتے ہوئے سیاست سے الگ رہے تشدد اور خفیہ کارروائی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آئین و قوانين اور قومی پرچم کے تئیں وفاداری نبھائے اور حلف لیتے ہوئے جمہوری نظام پر یقین رکھے ۔لہذا اسی شرط کے مطابق 11جولائی کو حکومت نے آر ایس ایس پر سے پابندی ختم کردی مابعد ملک کے پہلے انتخابات میں بھارتیہ جن سنگھ اور ہندو مہاسبھا نے حصہ لے کر کامیابی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا اور 1952 سے لیکر 1971 تک یعنی پہلے انتخابات میں تین دوسرے میں چار تیسرے میں پینتیس اور چوتھے میں بائیس ممبران کامیاب ہوئےجون 1975میں ملک کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کردی تھی ، علاوہ اس کے نسبندی کا اعلان بھی کیا گیا تھا جس کی وجہ سے عوام میں ناراضگی پیدا ہوگئی بیس مہینہ سے زیادہ عرصہ تک ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ تھا اس کے بعد 1977میں چھٹواں پارليمانی انتخابات عمل میں آیا بھارتیہ جن سنگھ تحلیل ہوگئی اور جئے پرکاش ناراین کی قیادت میں جنتا پارٹی کا قیام عمل میں لاکر ایک محاذ بنایا گیا جس میں بی ایل ڈی کانگریس او رسماج وادی سی ایف ڈی شامل ہوئی اس انتخاب میں جنتاپارٹی محاذ نے 295نششتیں حاصل کی اور کانگریس کو 153 نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا ۔ملک میں کانگریس کے وزیراعظم وصدارت اور قیادت پر غورکریں تو معلوم یہ ہوگا کہ پنڈت جواہر لعل نہرو سے لیکر اندرا گاندھی راجیوگاندھی پی وی نرسمہا رائو سیتارام کیسری سونیاگاندھی اور راہول گاندھی کی قیادت میں انتخابات عمل میں آئے لیکن قابل تعریف بات یہ ہے کہ 1984 میں جب راجیو گاندھی نے ایودھیا سے پارلیمانی انتخابی کا بگل بجایا تھا اس انتخاب میں سب سے زیادہ 415 نشستوں پر ریکارڈ توڑ کامیابی حاصل کی تھی ۔ایسا ریکارڈ اب تک کسی پارٹی نے نہیں بنایا ۔قابل غور بات یہ ہے 2014اور 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کی ذلت آمیز شکست کے اسباب پر غور کرتے چلیں کہ کس طرح سے ہندوتو کو بڑھاوا دیتے ہوئے جن سنگھ سے بھارتیہ جنتا پارٹی تک کو کامیابی کی دہلیز پر پہنچایا ۔اول 1948 جنوری میں مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد آرایس ایس پر پابندی لگائی گئی تھی جس کوجولائی 1949 میں وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے سنگھ کے صدر مادھورائو سداشیوگولوالکر کو شرائط کے ساتھ پابندی ہٹا لی تھی۔ علاوہ ازیں بابری مسجد میں بت رکھنے پر حکومت کی خاموشی دوئم 1963میں ملک کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے ذریعہ جشن یوم آزادی کے موقع پر آرایس ایس کے رکن کو پریڈ میں مدعو کرنا سوئم اندراگاندھی کے ذریعہ بھی ایمرجنسی کےدوران آر ایس ایس پر پابندی لگانا، چہارم 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد آر ایس ایس پر ایک بار پھر پابندی لگائی گئی تھی جو صرف چھ ماہ تک تھی ۔1915میں اکھل بھارتیہ ہندومہا سبھا کے قیام کے بعد ہندوتوا کی سب سے بڑی تنظیم مہاراشٹر میں واقع ناگپور میں 27ستمبر 1925 کو قیام اور جن سنگھ کا قیام 1950میں عمل میں آیا۔ یعنی 35 برسوں میں وطن عزیز میں ہندوتوا کو تقویت حاصل ہوئی حالانکہ 1934 میں جب بابری مسجد کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کی گئی تھی اس وقت بھی ملک میں کانگریس پارٹی موجودتھی لیکن جمعیت علما کی مداخلت پر انگریزی حکومت نے اپنے اخراجات پر مسجد کے تقدس کو بحال کرایا تھا دوسری طرف ہندومہاسبھا کے قیام کے بعد سے ہی مسلمانوں کے خلاف منافرت کی تحریک شروع کی گئی آر ایس ایس کے قیام نے ہندو مہا سبھا کو جلابخشی پندرہ اگست 1947 کو ملک آزاد ہوا اور 1949میں بت رکھ کر مسجد کے تقدس کو دوبارہ پامال کیا گیا۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں فرقہ وارانہ فسادات کا وہ لامتناہی سلسلہ شروع کیا گیا جو اب تک جاری ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔ملک کی کانگریسی حکومتوں نے فسادات کی تحقیقات کے لئے جانچ کمیشن کا قیام عمل میں لایا تاکہ فسادیوں کو کیف کردار تک پہنچایا جاسکے لیکن تمام جانچ کمیشن صرف ’دور کے ڈھول‘ ہی ثابت ہوئے۔ سیاسی اکھاڑے کی کھلاڑی ہندومہاسبھا جن سنگھ اور جنتا پارٹی کے نام سے ہندوتوا کو فروغ دینے والی شدت پسند تنظیم نے 1980 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی بنیاد ڈالی اور رام مندر تحریک کی ابتدا کی اور مسلسل بارہ سال کی کاوشوں نے سیکولر حکومت کے سامنے 1992کو بابری مسجد شہید کردی گئی ۔مسجد کی شہادت کے بعد 2002میں گجرات میں ایک تجربہ کیا گیا کہ اگر مسلمانوں کاقتل عام کیا جائے تو اس کے اثرات کیا ظاہر ہونگے ۔لہٰذا گجرات میں اس قدر مسلمانوں کا ہولوکاسٹ کیا گیا کہ اس منظر سے جلاد کی روح بھی کانپ گئی اور انسانيت شرمسار ہوکر رہ گئی 2002 فسادات کی جانچ بھی اسی طرح رہی جس طرح سے ماضی میں مختلف فسادات پر مبنی جانچ کمیشنوں کی رپورٹ اور کارروائی غیر اطمينان بخش رہی۔ گجرات فساد کی تاریکیوں کو صفاف کرنے کے لیے 2005 میں مرکز کی یوپی اے حکومت نے گجرات کے سابق وزیراعلی نریندر مودی کو نرمل گرام اور الٹیکس ایوارڈ کے علاوہ راجیو گاندھی فائونڈیشن نے بہترین ریاست کا درجہ کے ایوارڈ سے نوازا ۔ہندوتوا تنظيموں نے 2014کے عام انتخابات میں دلتوں اور شودروں کومسلم دشمنی کا ایسا درس دیا گیاکہ یہ دلت اور شودر بھول گیے کہ انہیں کبھی مندروں میں گھسنے کی اجازت تک نہیں دی جاتی اور نہ ہی کنویں سے پانی بھرنے دیا جاتا اور ان کو جوتیوں کی نوک پر رکھا جاتا تھا۔ آج اس سماج کو بھی مسلمانوں کے خلاف منافرت کی مہم شامل کیا گیا جس کے نتائج 2014 اور 2019کے عام انتخابات میں منظر عام پر آچکے ہیں۔ اس کے پس منظر میں بھی ایک وجہ ہے کہ بابا صاحب بھیم رائو امبیڈکر نے دلتوں اور شودروں کودستور ہند میں وہ حقوق دیے جو آزادی سے قبل نہیں تھے۔ ان کو زندگی گزر بسر کرنے اور سیاست میں حصہ داری کا درس دیا ۔اسی تحریک کو مزید تقویت بخشنے کے لیے کانشی رام نے بہوجن سماج پارٹی بنائی تاکہ دلتوں کو عدل وانصاف کا معاملہ ہواوران کو حقوق مل سکے۔ اس تحریک میں کانشی رام نے مسلمانوں کو بھی شامل کیا ۔کانشی رام کے انتقال کے بعد پارٹی کی ذمہ داری مایاوتی کو سونپی گئی۔ 1996میں اترپردیش کے اسمبلی انتخابات کے بعدمایا وتی نے کلیان سنگھ (بی جے پی )سے سمجھوتہ کرکے حکومت کی تشکيل کی تھی اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ سب پر عیاں ہے ۔ علاوہ ازیں 2014کے عام انتخابات میں اترپردیش میں یادو برادری نے ہندوتوا کا لبادہ اوڑھ کر بی جے پی کو ووٹ دیا بلکہ کئی ایسے حلقوں میں سماج وادی اور بی ایس پی کے مسلم امیدواروں کے خلاف دلتوں اور یادووں نے ووٹ دے کر بی جے پی کو کامیاب کیا ۔ ملائم سنگھ یادو کا بھی سنہرا خواب تھا کہ نریندر مودی دوبارہ وزیراعظم بنیں ، اس لیے 2019کے عام انتخاب میں بھی ملائم سنگھ یادو کے خواب کو یادو برادری نے پورا کیا ۔اب سوال یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے’کانگریس مکت بھارت‘ کا نعرہ دیا تھا کیا وہ خواب واقعی شرمندہ تعبير ہوگا؟اس سوال کے پس منظر سے صاف ظاہر ہے کہ گزشتہ 70برسوں میں دلتوں اور شودروں نے جہاں مظالم برداشت کئے وہیں انھوں نے اپنے حقوق حاصل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔وہ حقوق کی حصولیابی میں کامیاب بھی ہوئے، دوسری طرف ہندی مسلمانوں نے ملک کی تحریک آزاد ی ہند میں قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم کی اور آزادی سے لیکر تادم تحریر ہندوتوا کے خوف و دہشت میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے گلے میں فتح و کامرانی کا تمغہپہنانے میں مصروف رہے ، وہیں سیاسی جماعتوں اور مسلم قیادت کی ناکامی کے سبب مسلمانوں کے مقدر میں فرقہ وارانہ فسادات میں قتل عام سرکاری نوکریوں سے زیادہ تعداد جیلوں میں نشہ خوری اور متعدد جرائم میں سرفہرست ،تعلیمی سماجی و معاشی حالات بدتری اس قدر ہے کہ جسٹس راجیندر سچر ہندوستانی مسلمانوں کو دلتوں اور پسماندہ ذاتوں سے بھی بدتر کا خطاب دینے پر مجبور ہوگئے۔ بہر حال سونے کی چڑیاکہے جانے والے اور گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار وطن عزیز میں نفرت کی سیاست کامیابی سے ہمکنار ہے دوسری طرف اس آندھی میں جو شامل ہوا وہ بھی کامیابی کی طرف گامزن ہے ۔رہی بات مسلمانوں کی تو اب انہیں بھی پرانے تجربات سے باہر نکل کر جدیدتقاضوں پر غور کرنا ہوگا، کیونکہ گزشتہ 70برسوں سے مسلمانوں کی صدائیں حکومت کے ایوانوں سے ٹکرا کر بے وقعت ہو چکی ہیں ۔ اس لیے ہمیں ایسا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا کہ حکومت ہندی مسلمانوں کو نظرانداز کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے ! 9029516236