جمعہ نامہ: ہجرت و شہادت کا اسلامی کیلنڈر : قلم کار ڈاکٹرسلیم خان

جمعہ نامہ: ہجرت و شہادت کا اسلامی کیلنڈر
ڈاکٹرسلیم خان
اسلامی تقویم کا ماہِ اول محرم الحرام نانا کی ہجرت اور نواسے کی شہادت سے منسوب ہے۔ ہجرت نبوی ﷺ کی بابت ارشاد ربانی ہے ‘‘اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال ’’۔یہ ایک ایسا موقع ہے کہ نبی کریم ﷺ پر مکہ مکرمہ کی زمین تنگ کردی گئی ہے۔سردارِ قریش حضرت ابوطالب کے تحفظ کا سایہ سر سے اٹھ چکا ہے ۔ اقتدار کی باگ ڈور اسلام کے بدترین دشمن کے ہاتھوں میں جاچکی ہے۔ باطل قوتیں اسلام کی دعوت کو روکنے کے سارے حربے آزما کر ناکام ہوچکی ہیں ۔ان کے حوصلے اس قدر بلند ہیں کہ وہ نبی ٔپاک ﷺ کو تہہ تیغ کرنے کی ریشہ دوانیاں کرنے لگے ہیں۔ ایسے میں جو دعا سکھائی جارہی ہے اس میں نہ تو جان و مال کا اور نہ عزت و آبرو کو لاحق خطرات کا ذکر ہے ۔ بنیادی حقوق کے سلب ہوجانے کی گریہ و زاری نہیں بلکہ ‘سچائی’ پر دو مرتبہ زور دیا گیا ہے ۔ یعنی انسان کس سرزمین پر زندگی گزارے یا کن حالات سے نبرد آزما ہواس سے زیادہ اہم یہ کہ آیاوہ سچائی کا دامن تھامے رہتا ہے یا اس کو چھوڑ دیتا ہے۔ دعا کا خاتمہ اس پر ہے کہ ‘‘اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے’’۔ مینہ طیبہ میں رب کائنات نے اقتدار سے نواز کر اسے سازگار بنادیا۔
ان سنگین حالات میں نبی کریم ﷺ سے ا اعلان کروایا جاتاہے کہو "حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے” ۔ ایسے میں جبکہ بظاہر حق کا علمبردار مکہ مکرمہ سے روانہ ہورہا ہےاور وہاں حق کا چراغ بجھا چاہتا ہےیہ پیشن گوئی عالم الغیب کے علاوہ کوئی نہیں کرواسکتا تھا کہ باطل نے اپنے بجھنے کا سامان کرلیا ہے۔ اب اس کے مٹنے کا وقت آگیا ہے اور اس کو تو مٹنا ہی ہے۔ رب کائنات پر بے انتہا یقین کے بغیر اس کو ببانگ دہل پیش کرنےکی جسارت بھی ناممکن تھی ۔ اس وقت ۔کسی کےتصور خیال میں نہیں آسکتا تھا کہ ڈیڑھ سال بعد غزوۂ بدر میں کفار کے ۷۰ سردار کیفرِ کردار کو پہنچا دئیے جائیں گئےاور ۸ سال بعد فتح مکہ کےموقع پر خانہ ٔ کعبہ کو بتوں سے پاک کرتے ہوئے نبی ٔ کریم ﷺ کی زبان مبارک پر یہی آیت جاری و ساری ہوگی کہ ‘‘حق آیا اور باطل مٹ گیا باطل کو مٹنا ہی تھا ’’۔ اذنِ الٰہی سے ایک ناممکن دکھائی دینے والا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگیا۔
ماہ و سال کا سلسلہ شاہد ہے کہ مشیت ایزدی ناممکن کو ممکن بناتی رہتی ہے ۔ حضرت امیر معاویہ ؓ چاہتے تھے حکومت ان کی اولاد میں رہے۔ اس لیے انہوں نے خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرکے اپنے بیٹے یزید کو خلیفہ نامزد کردیا۔یزید اپنا اقتدار مستحکم کر کے اسے اپنے بیٹے کے حوالے کرنا چاہتاتھا ۔اس لیے نبی کریم ﷺ کی ہجرت کےاکسٹھ سال بعد جب ان کے پیارے نواسے امام حسینؓ نے مدینہ سے کوفہ جانب رخت سفر باندھا تو راستے میں یزید کی فوج نے انہیں کربلا کے مقام پر روک لیا اور سارے جوانوں کو شہید کردیا لیکن اس عظیم شہادت سے حق کی پامردی کاچراغ تا قیامت روشن ہوگیا۔ تین سال بعدجب یزید کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے نے اقتدار سنبھالنے سے انکار کردیا ۔ یزیدی منصوبےکے خاک میں ملتے ہی ہجرت والی اگلی پیشن گوئی کا اعادہ ہوگیاکہ ‘‘اور یہ لوگ اس بات پر بھی تلے رہے ہیں کہ تمہارے قدم اِس سر زمین سے اکھاڑ دیں اور تمہیں یہاں سے نکال باہر کریں لیکن اگر یہ ایسا کریں گے تو تمہارے بعد یہ خود یہاں کچھ زیادہ دیر نہ ٹھرا سکیں گے’’۔ آگے چل کراموی خاندان اقتدارمیں تو رہا لیکن حضرت امیر معاویہؓ کی اولاد اس سے محروم کردی گئی۔ اسی طرح کا معاملہ فی الحال آسام کے میں پیش آیا کہ مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنےوالےوزیراعلیٰ سربانندسونوال نےمرکزی اقتدار کے زیر سایہ جن ۱۹ لاکھ لوگوں کو غیر ملکی قرار دیا اس میں سے ۱۳ لاکھ ہندو اور ۶ لاکھ مسلمان نکلے ۔ اب سنگھ پریوار این آر سی کو مسترد کرکے رو رہا ہے اور مشیت مسکرا رہی ہے۔ بقول مومن خاں مومن؎
یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا