NRC, مسئلے کا حل؟ ممتاز میر


فی زمانہ شوشل میڈیا خاص طور پر وہاٹس ایپ رحمت بھی ہے اور عذاب بھی۔ہم جیسوں کے لئے عذاب زیادہ ہے جو دن بھر کسی نہ کسی کام میں الجھے رہتے ہیں۔ اور جن کی آنکھیں اور دماغ موبائل اورکمپیوٹر کے لائق نہیں رہے۔ان حالات میں ایک ہفتہ ہو گیابھائی لوگوں نے NRC سے متعلق ایک کاغذکا عکس بھیج بھج کر بھیجہ خراب کر دیا ہے

 فی زمانہ شوشل میڈیا خاص طور پر وہاٹس ایپ رحمت بھی ہے اور عذاب بھی۔ہم جیسوں کے لئے عذاب زیادہ ہے جو دن بھر کسی نہ کسی کام میں الجھے رہتے ہیں۔ اور جن کی آنکھیں اور دماغ موبائل اورکمپیوٹر کے لائق نہیں رہے۔ان حالات میں ایک ہفتہ ہو گیابھائی لوگوں نے NRC سے متعلق ایک کاغذکا عکس بھیج بھج کر بھیجہ خراب کر دیا ہے۔اس کاغذ میں دو کالم ہیں۔ایک لسٹA اور دوسرا لسٹB کا۔لسٹ/فہرست اے میں دیئے گئے دستاویزات میں سے کوئی ایک ۴۲ مارچ۱۷۹۱ سے پہلے اشو کیا گیا ہونا چاہئے۔جس میں آپ کا نام یا آپ کے اجداد کا نام ہو اور جس سے یہ بھی ظاہر ہو کہ وہ ۴۲ مارچ تک یا اس کے بعد بھی انڈیا میں رہے تھے۔اب سوال یہ ہے کہ لسٹ/فہرست بی کا کام کیا ہے؟اگر فہرست اے میں آپ کا نام نہیں ہے اس کے بجائے آپ کے والد،والدہ یا دادا کا نام ہے تو آپ کو لسٹ بی سے منتخب کرکے کوئی ایسا ڈاکیومنٹ پیش کرنا پڑے گا جس سے لسٹ اے میں سے دیئے گئے ڈاکیومنٹ میں والد/والدہ /داد کے ساتھ آپ کا رشتہ دکھایا گیا ہو۔فہرست اے میں ۴۱ ڈاکیومنٹس دئے گئے ہیں۔اور لسٹ بی میں ۸ ڈاکیومنٹس ہیں۔تمام ڈاکیومنٹس کی فہرست دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم بڑی آسانی سے اپنی شہریت ثابت کر دیں گے مگرکچھ گہرائی میں جا کر سوچا جائے۔موجودہ حکومت کی نیت پر غور کیا جائے اور کچھ معمولی ہدایات کو بھی Consider کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ کام عملاً محال ہے۔کیوں؟ وجہ یہ ہے کہ آپ اور آپ کے اجداد کے ناموں میں اسپیلنگ کی غلطیاں نہیں چلیں گی۔ہندی اور مراٹھی میں تو مسلم ناموں کا وہ حلیہ بگاڑا جاتا ہے کہ اپنے والدین اور اجداد کو اپناتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔شاید اسی لئے مودی جی اپنا کوئی ڈاکیومنٹ کسی کو دکھاتے نہیں۔اب سوچئے کہ اسی قسم کی باتوں کی بنیاد پر کئی دہائیوں تک ہندوستانی فوج میں خدمات دینے والے آسامی مسلمان فوجی کو ہندوستانی حکومت نہ صرف یہ کہ اسے اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکار کر چکی ہے بلکہ ڈٹینشن کیمپ کے حوالے بھی کر چکی ہے تو ہما شما کس کھیت کی مولی ہیں۔سوچئے کہ برسوں دیش کی حفاظت کرنے والے فوجیوں کو غیر ملکی قرار دینے سے حکومت کی کتنی جگ ہنسائی ہو رہی ہوگی۔ مگر دیش بھگتوں کو گؤ ماتا کی رکھشا کے سوا کوئی کام نہیں۔ہمیں ڈر ہے کہ کہیں باہر کی دنیا یہ نہ سمجھنے لگے کہ ہندوستانی اپنے دیش کی حفاظت بھی خود نہیں کر سکتے اور باہرسے فوجی امپورٹ کرتے ہیں۔۔۔خیر   تو صاحب! اس کاغذ کو دیکھ کر ہمارا بھیجہ جو خراب ہوا تو ہم نے اپنے ایک بزرگ دوست کے اسی کاغذ کے ہمیں بھیجنے پر صبح ۰۳۔۵بجے یہ کمنٹ ڈالا”قوم کو اس قسم کے احمقانہ دستاویزات جمع کرنے کا مشورہ دینے کے بجائے رہنمایان کو چاہئے کہ وہ ہندوستان گیر نہیں عالمگیر احتجاج شروع کرے۔اور جتنی جلدی کرے۔بہتر ہوگا“یہی کمنٹس ہم نے ان گروپس میں بھی ڈالا جہاں جہاں وہ کاغذ ڈالا گیا تھا۔اب ہمارے کمنٹ پر کیا کیا کمنٹس آئے وہ بھی ہم یہاں شیئر کرتے ہیں۔ایک دانشور نے لکھا ”بات بالکل درست ہے۔لیکن ڈاکیومنٹس جمع کرنا بھی ضروری ہے۔البتہ قوم کو بے حوصلہ نہ کریں۔ہم حوصلے کی بنیاد پر جینا سیکھیں۔نا کہ کاغذ کے ٹکڑوں کے سہارے۔اللہ ہمارے ساتھ ہے اس بات کا یقین عام کیا جانا چاہئے“۔دانشوروں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ انھیں کچھ سمجھے نہ سمجھے کچھ کہنا ان کے لئے ضروری ہوتا ہے اور کبھی کبھی وہ اسلئے بھی کہتے ہیں کہ ”کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی“۔(فی زمانہ شاید ہی کوئی یہ کہہ سکے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے)ایک صاحب نے لکھا ”ہماری بے حسی ان حالات کی ذمے دار ہے“۔ایک رائے یہ تھی ”اس کا بائیکاٹ ہونا چاہئے“یہ رائے ایک خاتون کی تھی اور بظاہر احمقانہ لگتی ہے۔مگر گہرائی سے غوروفکر کرنے کے بعد ہمیں یہی رائے بڑی بامعنی نظر آئی۔   ان سب کے علاوہ کل شام بمبئی میں ایک دانشور سے فون پر اس سلسلے میں بات ہوئی۔انھوں نے کہا ہمارے علماء اور لیڈر فضول لوگوں کو ڈرا رہے ہیں۔ہم ان سے متفق ہیں۔ہم جہاں رہتے ہیں یہ شہر مغل دور حکومت سے پہلے شاید فاروقی دور سے بھی پہلے بسا تھا۔یہاں کی جامع مسجد دلی کی شاہجہانی جامع مسجد سے پرانی بھی ہے اور بڑی بھی۔یہاں آج بھی نواب جاگیر دار وجود رکھتے ہیں۔سوچئے کہ اتنے قدیم شہر کے قدیم لوگ این آر سی کی وجہ سے ڈپریشن میں جا رہے ہیں تو نئے بسائے گئے شہروں کا حال کیا ہوگا؟اسلئے ہم اپنے علماء کرام اور لیڈران سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ حکومت سے کہیں کہ ہاں ہم تمام مسلمان غیر ملکی ہیں مگر اب یہ یاد نہیں کہ کس ملک سے آئے تھے۔ہمارے آباء اس ملک میں اس طرح بسے کے پھر اپنے ملک کو پلٹ کر نہ دیکھا۔اسی مٹی میں رل مل گئے۔اس کے لئے پہلے خون بہایا پھر اسی میں دفن ہوگئے۔اگر یقین نہ ہو تو آجکل واٹس ایپ پرگردش کرنے والی پوسٹ دیکھ لیں جس میں بتایا گیا ہے تحریک آزادی میں شہید ہونے والے ۳۹ ہزار شہیدوں میں مسلمان شہید کی تعداد ۱۶ ہزار تھی۔اگر اس مٹی میں رلنے ملنے اور دفن ہونے کی آرزو نہ ہوتی تو اس ملک کی ۳۱ فی صد آبادی ہونے والے مسلمانوں کی تعداد شہیدوں میں دو تہائی نہ ہوتی۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مسلمانوں سے شہریت اور وفاداری کا ثبوت /سرٹیفکٹ وہ مانگ رہے ہیں جن کی تعداد اس پوسٹ کے مطابق جنگ آزادی کے شہیدوں میں زیرو ہے۔خیر تو ہمارے تمام رہنمایان حکومت سے مطالبہ کریں کہ ہم کہاں سے آئے ہیں یہ تحقیق کرلے اور ہمیں جو اس ملک میں ’۵۲ کروڑ‘سے کم نہیں زیادہ ہی ہونگے اس ملک یا ممالک کے حوالے کردے۔اگر وہ ہمیں لینے کو تیار نہ ہوں تو پھر جس طرح چند لاکھ یہودیوں کو زبردستی ایک وطن عنایت کر دیا گیا ہے ہم ۵۲ کروڑ مسلمانوں کو بھی ہمارے جثے کے مطابق دنیا کے کسی بھی کونے میں ایک حصہ عنایت کردیا جائے۔ساتھ ہی زندگی گزارنے کے لوازمات بھی اسی طرح مہیا کردئے جائیں جس طرح پاکستان کو عطا کئے گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7697376137