’میرے سنہرے خوابوں کا ہندوستان‘: ماضی، حال اور مستقبل بھارتیہ جنتا پارٹی کانگریس مکت بھارت یا مسلمان مکت بھارت کا خواب دیکھ رہی ہے؟ نورمحمد خان ممبئی
’میرے سنہرے خوابوں کا ہندوستان‘: ماضی، حال اور مستقبل
بھارتیہ جنتا پارٹی کانگریس مکت بھارت یا مسلمان مکت بھارت کا خواب دیکھ رہی ہے؟
نورمحمد خان ممبئی
۷۵۸۱کی جنگ آزادی سے لیکر آزاد ہندکے قیام جمہوری نظام تک ہندی مسلمانوں نے اپنے لہو سے ہند کی سرزمیں کو سینچ کر انگریزوں کی غلامی سے آزادی کی فصل سر سبز کیا تاکہ آزادہند کی عوام آزادانہ طور پر ملک کی سلامتی اور قومی یکجہتی و گنگاجمنی تہذیب کے علم کو بلند رکھتے ہوئے اپنے اپنے مذاہب کے مطابق عمل کرسکیں۔لیکن جیسے جیسے ملک آزادی کی دہلیز کے قریب پہنچتا گیا انگریزوں کے بنے ہوئے جال ’پھوٹ ڈالواور حکومت کرو، کی پالیسی پر ملک کا ایک طبقہ عمل پیرا ہوگیا اور اسے عمل جامہ پہنانے کے لئے ہندو بنام مسلم کی سیاسی اعتقادی جنگ کی بنیاد رکھی۔ مجاہدین کو یہ نہیں معلوم تھا کہ جس سنہرے ہندوستان کو خوابوں میں دیکھ رہے تھے وہ ہندوستان آزادی کی ایک صدی بھی مکمل نہ کرپائیگااور اس سے قبل ہی مجاہدین آزادی کی نسلوں کومختلف زاویئے سے نیست ونابود کرنے کا منصوبہ بنا لیا جائے گا۔ جب ملک کے آزادی کی ہلکی سی شعائیں نمودار ہونے لگیں تب ۵۸۸۱میں ایک انگریز افسر اے او ہیوم نے کانگریس کی بنیاد رکھی جس کا مقصدیہ تھا کہ ملک ایک سیاسی پلیٹ فارم پر آجائے اور کانگریس کے پرچم تلے تحریک جنگ آزادی کی شمع روشن ہو اور اس تحریک آزادی کو کانگریس کے نام سے منسوب کیاجائے نہ کہ کسی ایک فرقہ یا گروہ کے نام سے منسوب ہو!کانگریس کے قیام کے بعد مسلمانوں نے کانگریس کے پرچم تلے آزادی کی تحریک شروع کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس وقت بھی مسلمانوں کے ساتھ تعصب کیا گیا۔اسی درمیان ۶۰۹۱میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا جو کانگریس کے بعد ایک سیاسی جماعت تھی چونکہ مسلمانوں کو آزاد ہند کا سنہرا خواب شرمندہ تعبیر کرناتھا اس لئے کانگریس کے دامن میں لپٹے رہے اور ایک ایسا دن بھی آیا جب ۵۱۹۱میں مدن موہن مالویہ کی قیادت میں اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کا قیام عمل میں لایا گیا ۶۱۹۱میں بال گنگا دھر تلک کی صدارت میں لکھنو میں کانگریس کا اجلاس منعقد ہوا اس جلاس میں کانگریس اور مسلم لیگ کا سمجھوتہ ہوا اور تمام اضلاع اور ریاستوں میں مسلمانوں کو مخصوص مقام حاصل ہوا ہندو مہاسبھا نے ۷۱۹۱میں ہری دوار میں مہاراجہ نندی کی صدارت میں ایک اجلاس منعقد کرکے کانگریس اور مسلم لیگ اتحاد کی مخالفت کی جبکہ اس بات سے انکار نہیں کیا سکتا کہ ۷۵۸۱میں انگریزوں نے صرف مسلمانوں کا ہی قتل عام کیا تھانہ کہ کسی اور قوم کو نشانہ بنایا،لیکن کانگریس سے مسلمانوں کی نااتفاقی کی وجہ سے مسلمانوں کا رجحان مسلم لیگ کی طرف زیادہ ہوگیا تھا اور کانگریس مسلمانوں کے بغیر خود کو ناکامیاب محسوس کررہی تھی اس لئے لکھنو اجلاس میں کانگریس نے مسلم لیگ سے سمجھوتہ کیا تھا تاکہ ایک مضبوط تنظیم کا ڈھانچہ تیار ہوسکے جس کی وجہ سے ہندومہاسبھا کو مسلم لیگ کی شمولیت ناگوارا لگی، ان کو معلوم تھا کہ مسلمانوں کی ٓبادی زیادہ ہے اس لئے اگر ملک آزاد ہوتا ہے تو اس ملک پر مسلمانوں کی حکو مت ہوگی اسی لئے ہندومہاسبھا کا قیام ہندوستان کو ہندوراشٹر بنانے کے لئے ہی عمل میں لایا گیا تھا۔آزاد ہندوستان میں مسلم لیگ کے قیام سے ہی فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ شروع ہوا،لیکن آزادی کے بعد ۹۴۹۱میں بابری مسجد میں بت رکھ دیا گیا اسی بنیاد پر سیکولر حکومت،مسلم لیڈران،مسلم تنظیمیں،سیاسی علمائے کرام کی موجودگی میں مذہب کے نام پر فرقہ وارانہ فسادات کا وہ لامتناہی سلسلہ شروع ہوا جسے دیکھ کر انسانیت بھی شرمسار ہوجائے۔سیکولر حکومتیں مسلمانوں کے زخموں پر مرہم لگانے کے لئے جانچ کمیشنوں کا قیام عمل میں لاتی رہیں اور فسادات ہوتے رہے یہاں تک کہ ۶دسمبر ۲۹۹۱کو بابری مسجد شہید کردی گئی اور اس کے بعد مسلمانوں کی تباہی وبربادی کی نئی اسکیم تیار کی گئی اور ملک میں بم دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا جس میں بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اور ان کی زمین تنگ کردی گئی ایسے حالات میں تحریک آزادی ہند کی تحریک برپا کرنے والے مجاہدین کی نسلیں آج تاریکیوں سے روشنی کی بھیک مانگتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔مرکز میں بی جے پی حکومت کے قیام سے قبل ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں فرقہ وارانہ منافرت،فسادات اور تشدد کا تجربہ کیا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ مظلوم مسلمانوں کے تئیں دیگر سیکولر پارٹیوں اور لیڈران کا نظریہ کیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جسے شودر اور دلت سمجھ کر مندروں اور کنویں کے قریب جانے نہیں دیا جاتا تھااور مسلمانوں کے ساتھ کاندھا سے کاندھا ملا کر چلتے تھے اس جماعت میں اس قدر تبدیلی لائی گئی کہ اترپردیش کی ۳۷نشستوں پر بھارتیہ جنتاپارٹی نے کامیابی کاپرچم لہرادیا اور مسلمانوں اور دلتوں کی قیادت کرنے والی سیکولر پارٹیاں منہ دیکھتی رہ گئیں۔ ملک کے موجودہ وزیر اعظم نے کہاتھا کہ بھارت کو ’کانگریس مکت بھارت‘بنانا ہے دوسری طرف وزیراعظم’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘اور مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قران اور ایک ہاتھ میں کمپیوٹر دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ایسا نہیں لگتا ہے کہ وزیراعظم کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگا؟مرکز میں بھارتیہ جنتاپارٹی (دوئم)کے قیام کے بعد سے مسلمانوں پر مظالم کے نئے دور کی شروعات ہو گئی اور گائے کے نام پر ملک کی مختلف ریاستوں میں ہجومی تشدد کا طوفانی سلسلہ شروع کیا گیا،جس میں سیکڑوں مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو،دلت،آدیواسی،کرسچن اورسکھ بھی ہجومی تشدد کا شکار ہوئے اورافسوس کی بات تو یہ ہے کہ سیکولر پارٹیاں خاموشی سے تماشہ دیکھ رہی ہیں۔ اسلام میں عورتوں کو اعلی مقام حاصل ہے لیکن اکیسویں صدی میں مغرب نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ خواتین آزاد ی کے حقوق سے محروم ہیں ان کو اپنی مرضی سے جینے کاحق ملنا چاہئے، لہٰذا اسی حقوق کو نافذ کرنے کے لئے مغرب نے خواتین کوکارپوریٹ سیکٹرمیں آلہ کار بنالیا اور اس کی نظیر نیم عریاں لباس میں ملبوس ریمپ پرپیش کیا۔مغرب نے عریانیت اور فحاشیت کے میدان میں خواتین کو ا س مقام پرپہنچادیا جسکی امید مقدس خواتین کو نہیں تھی اور یہی مغربی تہذیب کو عالم اسلام پرنافذ کرنے کے لئے حجاب پرپابندی لگانا چاہتی ہے۔ کیوں کہ حجاب شریعت سے ماخوذ ہے اسی طرح ہندوستان میں بھی شریعت میں مداخلت کی ابتداء کی اور درگاہوں میں خواتین پرجانے کی پابندی کے خلاف محاذتیار کیا گیا اور قانونی طور پرپابندی کو منسوخ کردیا گیاعلاوہ اس کے مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی اور دارالعلوم دیوبند میں جس طرح سے درس گاہ کے تقدس کو پامال کیا گیا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ابھی حال ہی میں ایوان بالا میں طلاق ثلاثہ بل پاس کردیا گیا جو شریعت کے خلاف تھا لیکن حکومت کو وہ خواتین نہیں دکھائی دیتیں جو غریبی،مفلسی،مجبوری کی وجہ سے گمراہ اور نوجوان خواتین جسم فروشی کے دلدل میں ضم ہورہی ہیں حکومت ان غیراخلاقی کاموں کو انجام دینے والی خواتین سے یہ سوال کرنے کی جرات نہیں کررہی ہے کہ جسم فروشی کیوں کرتی ہو اور کیا مجبوری ہے؟ اگر ہم حالات حاضرہ کا تجزیہ کرتے ہیں تو معلوم یہ ہوگا کہ حکومت کے نشانے پرمسلمان ہیں جنھوں نے آزادی سے قبل مسلم لیگ سے لیکر کانگریس تک سیاسی تنظیم کا ساتھ دیا مسلم لیگ تو ختم ہوچکی ہے لیکن اب کانگریس مکت بھارت کی تعمیر کرنا چاہتی ہے جس کا تعلق آج بھی مسلمانوں سے ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے وزیراعظم سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ محض ایک جملہ ہے۔ اگر واقعی میں نریندر مودی مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قران اور ایک ہاتھ میں کمپیوٹر دیکھنا چاہتے ہیں تو اول ہجومی تشدد کی روک تھام کے لئے سخت قانون بنانے کی ضرورت ہے مسلمانوں کے ذاتی مسائل اور شریعت میں مداخلت بند کرکے ملک میں اربوں کی وقف بورڈ کی آمدنی سے مسلمانوں کی فلاح وبہبود کا راستہ ہموار کرنا چاہئے اور تین طلاق پرقانون بنانے کی بجائے مظلوم خواتین جو جسم فروشی جیسے غیر اخلاقی کاموں میں ملوث ہیں ان کی بازآبادکاری کرنی چاہئے۔ملک سے بیروزگاری سے لیکر منافرت،فرقہ پرستی جیسے عنوان کو بھارت مکت بنانے کی ضرورت ہے تاکہ جن لوگوں نے ملک کی آزادی کے لئے میرے سنہرے خوابوں کے ہندوستان کی تعمیر کا خواب دیکھا تھا وہ مکمل ہوجائے۔ اگر ایسا ممکن ہے تو یقینا کانگریس ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی تنظیم مکت بھارت بن سکتا ہے۔کاش کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات!9029516236