فضائیں چپ ہیں کچھ ایسی کہ درد بولتا ہے : خوداحتسابی‘‘مضمون نگار ، سید حسین شمسی



*فضائیں چپ ہیں کچھ ایسی کہ درد بولتا ہے* 
عید قرباں کی آمد آمد ہے۔ سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی کے لئے جہاں جانوروں کی خریدو فروخت کا سلسلہ دن بہ دن زور پکڑ رہا ہے وہیں ملک کے بیشتر شہروں میں بڑے جانوروں کی قربانی کی ممانعت سے پریشانی بھی لاحق ہے۔ اس پابندی کے باعث متوسط طبقے کا وہ مسلمان جو اپنے کنبے کے ہر فرد کے نام سے قربانی بہ سہولت کروالیتا تھا اب وہ چھوٹے اور مہنگے جانوروں پر انحصار کے سبب چند افراد کے نام سے  قربانی کرنے کا متحمل ہوگا۔ قربان جائیے  شریعت محمدی ؐ  پر کہ جس میں عمل کے لئے استطاعت کی شرط ہے اس لئے راحت ورخصت میسر آجاتی ہے نیز مسلمان اس  سنت کی  ادا ئیگی کرلیتا ہے۔ قربانی کے جانوروں کے علاوہ ان دنوں چرم قربانی کی گرتی قیمتوں کا مسئلہ بھی سوہانِ روح بناہوا ہے۔ اس سے اربابِ مدارس کچھ زیادہ ہی متشوّش اور پریشان ہیں۔ ماہ رمضان اور عید قرباں دو ایسے مواقع ہیں  جب مدارس کے سفراء وعلماء  زیادہ متحرک ہوتے ہیں۔ رمضان میں زکوٰۃ وفطرہ کی وصولی کے لئے شہر در شہر سفیر حضرات نظر آتے ہیں اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر حصہ وچرم قربانی کے حصول کے لئے اشتہارات و اپیل جاری  ہوتی ہے۔ ان  دو مواقع پر جمع ہونے والی اعانت سے اہل مدارس اپنے سالانہ بجٹ کا بیشتر حصہ پورا کرکے سال بھر یکسوئی کے ساتھ تعلیم وتعلّم میں مصروف ہوجاتے ہیں، لیکن گزشتہ دو برسوں سے خام چرم کی قیمتوں میں  مسلسل گراوٹ کے سبب بازار سے وہ قیمت نہیں مل پارہی ہے جس سے گھر گھر جاکر چرم اُٹھانے، یکجا کرنے، نمک لگانے اور اس کو فروخت کرنے تک کاصرفہ و محنت کا بدل حاصل ہوجائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بیزار ہوکر بعض علماء وملی تنظیمیں یہ اعلان کر بیٹھیں کہ امسال قربانی کرنے والے چرم کو عطیہ کرنے یا کسی تاجر کو فروخت کرنے کے بجائے اس کے چار ٹکڑے کرکے دفن کردیں۔ یہ فیصلہ اس مفروضہ کے تحت کیا گیا کہ چرم کی قیمتوں میں اچانک  کمی حکومت وتاجرین کی متعصبانہ پالیسی وسازش کا نتیجہ ہے۔ اس ضمن میں ممبئی واطراف کے شہروں میں ذمہ دارن مدارس نے متعدد میٹنگیں کرنے کے بعد تمام تفصیلات کے ساتھ باضابطہ اپیل جاری کردی کہ کیوں، کہاں اور کس طرح جانور کی کھالیں دفن کی جائیں۔ البتہ یہ شرط بھی لگائی گئی کہ ہر قربانی کرنے والا یہ نیت بھی کرلے کہ کھال دفن کرنے کے باوجود بڑے جانور کی کھال کے عوض 200 اور چھوٹے جانور کی کھال کے بدلے 100 روپے اپنے محبوب اداروں میں ضرور جمع کروائے گا۔ اس طرح حکومت کے خلاف احتجاج بھی درج ہوجائے گا اور مدارس کی کفالت میں روایتی حصہ داری بھی بنی رہے گی ۔ ابھی اس اعلان کو چند روز ہی گزرے ہوں گے کہ مختلف مکاتب فکر کے علماء نے ممبئی سے متصل ایک دوسرے شہر میں مشاورتی میٹنگ طلب کرکے بالاتفاق یہ اعلان کیا کہ شریعت میں مال کا ضیاع ممنوع ہے اس لئے کھال کو فروخت کرنے کے بجائے دفن کرنا قطعی نامناسب ہے۔ علماء کرام کی ان متضاد اپیلوں سے امت میں بے چینی اور ناراضگی صاف محسوس کی گئی اور روایتی انداز میں یہ  الزام لگنے لگا کہ ’یہ علماء خود تو کسی رائے پر متفق و متحد ہوتے نہیں اور ہم مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرو‘۔ مسلمانوں کی ناراضگی بجا ہے، کیونکہ کسی بڑی تحریک کو برپا کرنے یا موقف اختیار کرنے اور اعلان کرنے سے قبل اس کے سائیڈ افیکٹ اور ردعمل کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے تھا۔ کھالوں کے دفن کرنے کی اپیل سے قبل عالمی کساد بازاری کے بارے میں بھی جاننا چاہئے  تاکہ بالیقین  یہ رائے قائم ہو کہ آیا واقعی اس میں حکومت کی سازش و شرارت کا دخل ہے یا عالمی سطح پر چرم کی قیمتوں میں حد درجہ گراوٹ ہے۔ اگر اصل اسبا ب کا علم حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی تو یہ حقیقت بھی سامنے آتی کہ خام چمڑے اور اس سے تیار کی جانے والی مصنوعات کی بڑی کھپت بین الاقوامی بازار میں ہوتی ہے، لہذا یہ تجارت ہمیشہ عالمی مارکیٹ  کے اتار چڑھاوُ کا شکار رہتی ہے۔ آج بین الاقوامی فیشن انڈسٹری میں چمڑے سے بنی مصنوعات کی مانگ بہت کم ہو چکی ہے اسی وجہ سے چمڑے کی کھپت میں بہت گراوٹ آئی ہے۔ دو تین سال پہلے تک نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے بازار میں کچے چمڑے اور ویٹ بلیو خریدنے کے لئے چھ مہینے پہلے بکنگ کرنی پڑتی تھی اور منہ بولے داموں  پر مجبوراً خریدنی پڑتی تھی، مگر آج وہ لوگ منت سماجت کر کے اپنا مال بےحد کم داموں پر بیچ رہے ہیں۔ اسی طرح برازیل کے چمڑوں کے داموں میں تین چوتھائی گراوٹ آئی ہے۔ چمڑہ سازی کی صنعت سے وابستہ افراد کے مطابق عالمی سطح پر چمڑے کی مصنوعات کی طلب میں کمی کے باعث فرنش لیدر کی ڈیمانڈ اور قیمت میں کمی کا رجحان غالب ہے۔ سو عالمی منڈی کے اثرات مقامی مارکیٹ پر بھی پڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں خام لیدر کی قیمتوں میں حد درجہ گراوٹ آئی ہے۔ ارجنٹائنا بڑے جانوروں کا سب سے بڑا ملک مانا جاتا ہے، یہاں بڑے جانوروں کی کھال ایکسپورٹ کرنے پر پابندی تھی، اب یہ پابندی ہٹالی گئی ہے، تووہاں سے بڑے پیمانے پر کھال کا ایکسپورٹ بھی گراوٹ کا سبب بنا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ عالمی منڈی میں چین وامریکا کی تجارتی لڑائی، اٹلی اور روس میں معاشی سست روی نے چمڑے کی عالمی مارکیٹ کو کچل  کر رکھ دیا ہے۔اس لیے ہر چیز کو سیاسی سازش یا حکومت کی شرارت تصور کرنے کے بجائے حقیقی صورت حال کے مطابق اقدامات کر نا چاہئیں۔ چرم قربانی کو دفن کرنے کی اپیل کرنے والے علماء کو غور کرنا چاہیے  کہ کیا ارجنٹائنا و برازیل میں میں بھی مدارس کے خلاف سازشیں کار فرما ہیں، کیا وہاں بھی مدارس کو چندہ دینے والوں کو سزا دینے کے لئے داموں کو گرایا جارہا ہے۔ اگر  تھوڑی دیر کے لئے یہ مان بھی لیاجائے کہ ہر قربانی کرنے والا شخص اپنے حصے کی کھال خود دفن کرے، تو یہ  گاؤں دیہات میں تو ممکن ہے، لیکن شہروں میں ممکن نہیں ہے۔ ہم مسلمان جو برادرانِ وطن کے جذبات کا خیال رکھے بنا تین دنوں تک مسلسل راستے کی نالیوں کو سرخ کئے رہتے ہیں، راستوں پر جگہ جگہ ہڈیاں اور غلاظت پڑی نظر آتی ہے، راہگیر اپنی ناک پر رومال رکھ کر تیزی سے گزرتے دکھائی دیتے ہیں، وہ اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کے تئیں اتنے سنجیدہ کیسے ہوسکتے ہیں کہ کھال کے دفن کرنے کے لئے شہر سے دور کسی کچی زمین کی تلاش میں سرگرداں نظر آئیں۔ جناب ایچ اے رقیب اپنی فیسبک وال پر ایک پُرمغز مضمون میں لکھتے ہیں کہ چمڑے کو مصرف میں لانے کے بجائے دفن کرنے کی اپیل کرنے والوں کو شاید یہ نہیں معلوم کہ آج بھی ستر فیصد ٹینری کے مالکان مسلمان ہیں اور وہ لوگ بھی سستے داموں میں چمڑے خرید کر سستے داموں ہی میں بیچ رہے ہیں۔ لاری کا کرایہ اور بنانے کا خرچ کچے چمڑوں کے دام سے دُگنا ہو گیا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی چمڑے کو پھینکنے والی نادانی کرے تو اس کا نقصان حکومت یا دشمن کا نہیں خود ان کے ہی بھائیوں کو ہوگا۔ لہذا دانشمندی کا تقاضہ ہے کہ ان حالات میں قرآن کی اس آیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے صبر کا دامن تھامے رہیں۔ تلك الأيام نداولها بين الناس۔ مفہوم: اور ہم یہ دن لوگوں میں باری باری بدلتے رہتے ہیں۔ (سورہ آل عمران) علاوہ ازیں اپنے اداروں کے اخراجات کو کم سے کم تر کریں نیز اللّٰہ رب العزت سے حالات میں سدھار کی دعا کرتے رہیں۔