وقت اوراس کے تقاضے : ممتاز میر

کل تک لاہور کے ڈاکٹر محمد امین کی کتاب’مغرب کا عروج اور متوقع زوال‘کا ہندوستانی ایڈیشن ہمارے زیر مطالعہ تھا ۔مجموعی طور پر کتاب اچھی ہے ۔ مگر ہمارے دماغ کی سوئی اب بھی کتاب کے صفحے ۲۴۱ پر اٹکی ہوئی ہے جہاں صاحب کتاب نے جو کچھ لکھا ہے ہم وہ اقتباس یہاں دے رہے ہیں۔ ’دوسرا رویہ مغرب کے خلاف رد عمل کا تھا جس نے مدافعت کا رنگ اختیار کرتے ہوئے اس کے اثرات کو قبول کر لیا،خواہ غیر شعوری طورپر ہی سہی ، کیونکہ غالب فکر و تہذیب کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑی آسانی سے اپنے مخالفوں کو لڑائی کے اپنے منتخب کردہ میدان میں گھسیٹ لاتی ہے اور انھیں اپنی پچ پر کھیلنے پر مجبور کردیتی ہے ۔یہ رنگ ہمیں مولانا مودودی ، مولانا آزاد اور کسی حد تک اقبال میں نظر آتا ہے ۔مولانا آزاد کی فکری عبقریت اور علمی تبحرمغربی جمہوریت کی وادیوں میںگم ہو گیا ۔علامہ مشرقی بیلچے کے چند وار کر کے آؤٹ ہوگئے اور مولانا مودودی نے آخرت پر مبنی دین کو محض دنیوی نظام اور تحریک کہہ کر پیش کیا اور محض سیاسی جدو جہد اور انقلاب امامت کو پورے دین کی اقامت قرار دیا ‘۔اس اقتباس میں ڈاکٹر صاحب نے غیر شعوری لفظ استعمال کرکے مولانا مودودیؒ،علامہ اقبالؒ اور خود پر ظلم کیا ہے ۔اس طرح انھوں نے مولانا مودودی اور علامہ اقبال کے کام کو شعور سے خالی کہا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ خود انھیں مولانا اور علامہ کے کام کا کتنا شعور ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسے شعور سے خالی کام کو بین الاقوامی سطح پرتسلیم کیسے کیا گیا ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ مولانا وحیدالدین خان کی طرح مولانا مودودیؒ اور علامہ اقبالؒ کی نفی کرکے اپنی اہمیت بڑھا رہے ہوں۔  درج بالا اقتباس کو پڑھنے کے بعد ہمارے دماغ میں بہت سی باتیں گونج گئیںجنھیں ہم یہاں شیئر کرتے ہیں۔ہمیں لگا کہ صاحب کتاب مولانا مودودی کے ان روایتی مخالفین میں سے ہیں جنھوں نے مولانا کی وفات کے ۴۰ سال بعد بھی مولانا کا پیچھا نہیں چھوڑا ہے یا پھرآپ مولانا کے لٹریچر کے ان خوشہ چینوں میں سے ہیں جو دوسروں پر تنقید کرتے ہوئے توازن کے طور پر اپنوں پر بھی ’محبت و شفقت‘ کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں۔ ہمارے یہاں جماعت کے ساتھ ایسا بہت ہوتا ہے۔دوسری بات جو ہمارے دماغ میں آئی وہ یہ کہ ہر شخص کا ایک دور ہوتا ہے ایک زمانہ ہوتا ہے ۔ وقت کے تقاضے اور مسائل ہوتے ہیںجس پر وہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توجہ دیتا ہے۔مثلاً حجۃ الاسلام ابو حامد الغزالی جو گیارھویں صدی میں پیدا ہوئے تھے ۔کہا جاتا ہے کہ امام غزالی نے اکیلے جو کام کیا ہے وہ ایک اکیڈمی کے کرنے کا تھا۔مگر سب سے اہم کام جس کے لئے وہ تا قیامت جانے جاتے رہیں گے یونانی فلسفے کا رد ہے۔یونانی فلسفے کا جادو اس وقت تمام مذہبی شخصیات کے سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔امام غزالی نے علماء کرام کے سر سے یونانی فلسفے کا نشہ اتار دیا تھا ۔ اس کے باوجود کیا امام غزالی پر تنقیدیں نہیں ہوئیں ۔مگر فی الوقت وہ ہمارا موضوع نہیں۔  مولانا مودودی نے جس وقت متحدہ ہندوستان کے میدان صحافت میں قدم رکھااس وقت اس میدان کے بڑے بڑے مسلم جغادری اسلامی نہیں قومی سیاست کر رہے تھے ۔اور قوم ان کے نزدیک اوطان سے تشکیل پارہی تھی ۔اس وقت امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد شیخ الہند مولانا حسین احمد مدنی ، علامہ سید سلیمان ندوی ،مولانا احمد سعید ،مفتی کفایت اللہ اور مولانا اشرف علی تھانوی وغیرہم مسلمانوں کے درمیان موجود تھے۔اور دین وملت کی خدمت بھی کررہے تھے۔مگر اسلام کے احیاء،اسلامی سوسائٹی کا قیام اور اسلامی ریاست کا حصول اور اس کی اقامت کا تصور کسی کے پاس نہ تھا ۔ اس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ شریعت پر مبنی ریاست کا قیام فی زمانہ ممکن نہیں۔زیادہ سے زیادہ جو کچھ کیا جارہا تھا وہ یہ تھا کہ کسی طرح خلافت کو بچا لیا جائے ۔ مگر وہ بھی ممکن نہ ہو سکا۔علامہ اقبال اور مولانا مودودی دونوں ہی دین کے ہمہ گیر تصور کے داعی تھے ۔اور اسی کامن کاز نے علامہ اقبال جیسی بین الاقوامی اور دین کے درد میں شرابور شخصیت کو جن کی اوپر مذکور کم وبیش ساری دینی شخصیات سے خط وکتابت تھی ،مولانا مودودی کا طلبگار بنا دیا تھا۔ مولانا مودودی نے صرف تصور ہی پیش نہیں کیا بلکہ اپنی تحریروںمیں دلائل سے ثابت بھی کیا کہ اسلام اور اس کی بنیاد پر بننے والی ریاست کا قیام آج بھی اتنا ہی ممکن ہے جتنا ۱۴۰۰ سال پہلے تھا۔سودی معیشت کے سامنے ہمارے بڑے بڑے علماء کرام گھٹنے ٹیکے ہوئے تھے ۔ مگر مولانا مودودی نے سودی معیشت کے بھی بخئے ادھیر کر رکھ دئے تھے۔برسوں ہوئے ہندوستانی جماعت اسلامی کے ایک رکن ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کواسلامی معیشت پر شاہ فیصل ایوارڈ مل چکا ہے برسوں سے وطن عزیز کی جماعت کے افراد اسلامی بینکنگ کا تصور پیش کر رہے ہیں۔یہاں کے ماہرین بھی اس کی حمایت کر رہے ہیں۔مگر حکومت نا معلوم وجوہات کی بنا پر اسے عملی جامہ پہنانے سے کترا رہی ہے۔  صاحب کتاب کا آخری جملہ ’سیاسی جد و جہد اور انقلاب امامت کو دین کی اقامت قرار دیا ‘ بڑا تکلیف دہ ہے۔بطور خاص اس صورت میں جب کہ وہ ڈاکٹر بھی ہیں۔وہ جو کہہ رہے ہیں اگر وہ صحیح ہے تو پھر مولانا نے قادیانی مسئلہ لکھ کر پھانسی کی سزا کیوں پائی تھی ؟انھیں توقادیانیوں کے ووٹوں کی فکر کرکے دین کی اقامت کا کام کرنا تھا ۔مگر پہلے سے موجود علماء کرام کی قادیانی مخالف آراء کو اس طرح تقویت پہونچائی کہ بالآخر حکومت کو انھیں غیر مسلم قرار دینا پڑا۔       آگے ایک جگہ صاحب کتاب لکھتے ہیں’جو لوگ دعوت واصلاح اور تعلیم و تزکیہ پر اصرار کرتے ہیںوہ مسلم معاشرے کی اصلاح کے لئے اجتماعی اور سیاسی جد وجہد کو دنیا داری کہہ کر ان سے اعتناء نہیں کرتے ہمارے نزدیک یہ رویہ بالکل غلط ہے ۔کیونکہ مسلمان ریاستوں کو صحیح اسلامی ریاستیں بنانے کے لئے سیاسی جد جہد ضروری ہے۔اور اس کام کی ایک شرعی حیثیت ہے ۔لیکن یہ جد وجہدنہ تعلیم و تزکیہ کے اس مفہوم کی نقیص ہے جس کا ذکر ابھی ہم نے سطور بالا میں کیا ہے اور نہ اس کی نعم البدل ہے ‘ان سطور کو پڑھنے کے بعد ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے ڈاکٹر صاحب نے مولانا مودودیؒ اور علامہ اقبالؒ کے ذکر والی سطور کیوں لکھی۔کیونکہ تزکیہ و تربیت تو مولانا نے جماعت کے لئے لازمی قرار دیا ہے اور ہر مہینے دو مہینے میں جماعت کے تربیتی کیمپ لگتے رہتے ہیں۔  اس کے بعدمحترم ڈاکٹر محمد امین نے مسلمانوں کو سیاسی غلبے کے لئے، بلکہ عسکری غلبے کے لئے (اسلام تو ۱۴۰۰ سالوں میں کبھی مغلوب ہوا ہی نہیں ۔ مسلمان جب بھی سیاسی ؍عسکری اعتبار سے مغلوب ہوئے اسلام نے انھیں جلد یا بدیر پھر غالب بنادیا)جو جو بھی ہدایات یا نصیحتیں فرمائی ہیں انھیں پڑھ کر ایسا لگا کہ یہ سب مولانا مودودی کے لٹریچر کا چربہ ہیں۔اسلئے ان کا یہ کہنا کہ’مولانا مودودی نے آخرت پر مبنی دین کو محض دنیاوی نظام اور تحریک کہہ کر پیش کیا اور محض سیاسی جد وجہد اور انقلاب امامت کو دین کی اقامت قرار دیا ‘ہماری سمجھ میں نہیں آیاایک خیال یہ بھی آتا ہے کہ شاید ڈاکٹر صاحب نے یہ بات اسلئے لکھی ہوکہ مولانا نے ہر عمل کے ساتھ ساتھ کہیں یہ نہیں لکھا کہ مثلاً جابر سلطان کے سامنے کلمہء حق کہنے پرآخرت میں بدلے میں یہ اور یہ ملے گا یا اتنی نیکیوں کا ثواب ملے گا ۔اب مولانا کو کیا معلوم تھا کے ان کے بعد ایک ڈاکٹر صاحب ایسے بھی ہونگے ۔ہمارا خیال ہے کہ مولانانے یہ کام تبلیغی جماعت کے لئے چھوڑ دیا ہوگا ۔کیونکہ ہمارے دانشور یہی کہتے ہیں ناکہ دینی جماعتوں کو تقسیم کار کے تحت کام کرنا چاہئے۔  جو بھی ہو ہم ڈاکٹر صاحب سے دست بستہ عرض کرتے ہیں کہ انھیں مولانا سے جو بھی شکایتیں ہوں اس پر بھی ایک کتاب لکھ دیں۔      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7697376137    ــ