اندریش کمار کی دارالعلوم دیوبند آمدآر ایس ایس وفد کی مہتمم دارالعلوم دیوبند سے ملاقات کے بعد مختلف قسم کی قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع

دیوبند۔(ایس۔چودھری)آر ایس ایس کے سینئر لیڈر و مسلم راشٹریہ منچ کے سرپرست و نگراں اندریش کمار کی دارالعلوم دیوبند آمد نے ایک نئی بحث کو جنم دے دیاہے، سوشل میڈیا پر ان آمد کو لیکر کافی گرماگرم بحث ہورہی ہے، ایک طرف جہاں مولانا غلام محمد وستانوی کے معاملہ کو تازہ کیا جارہاہے وہیں دوسری طرف دید آید درست آید والی کہاوت کے مطابق اس قدم کی تائید بھی کی جارہی ہے، لیکن قابل ذکر امر یہ ہے جس آرایس ایس کا ایجنڈہ ہی مدارس کو ختم کرکے ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا ہے اس کے تئیں دوسری مرتبہ مودی سرکار آنے کے بعد سے ہمارے کچھ علماء وز عما کافی نرمی اور مصلحت کا مظاہرہ کررہے ہیں اور تبصرہ و تنقید کرنے والوں کو اسلامی اخلاقیات کا درس دیا جارہاہے۔ اندریش کمار کی دارالعلوم دیوبند آمد اور وہاں مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی کے ذریعہ ان کے روایتی استقبال سے کسی کو ذرہ برابر شکایت نہیں ہے لیکن اس ملاقات نے کئی اہم سوالات کو جنم ضرور دے دیاہے، قابل غور بات یہ بھی ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے کئی اہم لوگوں نے اس تقریب میں کئی گھنٹے تک شرکت کی جس میں اندریش کمار کو شریک ہونا تھا اور پھر وہ ان کولیکر دارالعلوم دیوبند پہنچے جہاں مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی سے انہوں نے ملاقات کرکے امن کا پیغام دینے کی کوشش کی۔ اندریش کمار نے دارالعلوم دیوبند کے مہمانہ خانہ میں پہنچ کٹر پنتھ ،حب الوطنی اور امن کی بات پر ضرور دیا ،ا ن کے انداز گفتگو سے ظاہر ہورہا تھا کہ مسلمان ہی کٹر پنتھی ہوتا ، وہی بدامنی پھیلاتا ہے اور اسے حب الوطنی سیکھنے کی سخت ضرورت ہے، انہوں نے تعلیم کی بات ضرور کی لیکن نہ انہوںنے دارالعلوم دیوبند کی ڈیڑھ سو سالہ زریں تاریخ کے حوالہ سے گفتگو کی اور نہ دہشت گردی کے سوالات پر گفتگو کی، اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ دارالعلوم دیوبند گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے اس مظلوم امت کی نمائندگی کا فریضہ انجام دے رہاہے، لیکن اب دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ کی پالیسیوں میں بھی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے، ایک طرف دارالعلوم دیوبند نے پوری طرح اپنے مہما ن خانہ میں میڈیا گفتگو پر پابندی لگا رکھی ہے اور دارالعلوم دیوبند کے وہ رکن شوریٰ جو اپنے علاقوں میں نہایت اہم سیاسی و سماجی مقام رکھتے ہیں انہیں بھی مقامی میڈیا سے گفتگو کی اجازت نہیں ہوتی ہے،اتنا ہی بلکہ مقامی نمائندوں کے ساتھ بھی بدسلوکی کی جاتی ہے، وہیں دوسری طرف اندریش کمار کو نہ صرف پوری اجازت تھی بلکہ انہوں نے صرف اور صرف اپنی بات کہی اور اسی ایجنڈے کے تحت گفتگو کی جس کے تحت وہ کام کرتے ہیں،ان کے نزدیک اس ملک میں اویسی اور اعظم خاں ہی فرقہ پرستی پھیلارہے ہی، گری راج، ساکشی مہاراج جیسے لوگوں کے نام لینے پر وہ صحافیوں کو کمیونل کہنے لگتے ہیں۔ اندریش کمار کے متعلق کئی اہم لوگوں نے نہایت جامع مضامین تحریر کئے ہیں جس میں اجمیر اور سمجھوتہ ایکسپریس جیسے سنگین واقعات کا بھی ذکر ہے ۔ اندریش کمار نے اپنے پیغام انسانیت کے پروگرام میں نہ صرف بھارت ماتا کی جئے کے نعرے لگوائے بلکہ مجلس کے درمیان سے کچھ باشرع لوگوں نے ’وندے ماترم ‘ کے بھی نعرے لگوائے۔ مسلمانوں میں راشٹریہ مسلم منچ کتنا مقام بنا چکی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے گزشتہ روز دیوبند میں اتراکھنڈ اور مغربی یوپی کے کئی اضلاع کے باشرع لوگ اندریش کمار کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔ بہر حال دارالعلوم دیوبند میں اندریش کمار کی آمد مسلمانوں کی محبت اور ہمدردی میں ہے یا پھر ہندو راشٹر کے لئے راستہ ہموار کرنے کی ایک کوشش ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔