عبادات کے موسمِ بہار میں خبردار
ڈاکٹر سلیم خان
رمضان بجا طور ایمان کی بہار کا موسم ہے۔ اس کا اثر کسی ایک عبادت تک محدود نہیں ہوتا بلکہ روزوں کے ساتھ مساجد کے اندر نمازیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ ساتھ انفاق کا جذبہ بھی بڑھ جاتا ہے ۔ حدیث میں رمضان کو ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ بھی کہا گیا ہے۔بندۂ مومن دیگرکمزور بندوں کی خبرگیری کرکے اپنے خالق و مالک کی خوشنودی حاصل کرتا ہے۔ اس حدیث کے تناظر میں ۱۳ مئی یعنی ۷ رمضان المبارک کو بہار کے سمستی پور میں وقوع پذیر ہونے والی خبر کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ سوشیل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کے مطابق رحیم چاچا اور بیٹی رخسانہ کو نواب میاں اور ان کے ۵ ساتھیوں نے رسی سے باندھ کر بے رحمی سے پیٹا۔ رخسانہ کی ماں حسینہ بچانے کے لیے آئی تو اسے بھی زد و کوب کیا گیا ۔ ان مظلوموں کی زمین پرغاصبوں نے جبراً دیوار بنائی اور جب احتجاج کیا گیا تو سفاکی کا شکار ہونا پڑا۔ پولس کے مطابق اس علاقہ میں یہ عام سی بات ہے اس لیے بعید نہیں کہ اس جرم کا رتکاب کرتے وقت نواب میاں اور اس کے ساتھی روزے سے ہوں ۔
رمضان کی عبادات اہل اسلام کے لیے ہیں ۔ محمدﷺ نے مسلما ن کی تعریف یوں بیان فرمائی کہ ’’ مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔ نواب میاں اور رحیم چاچا ہمسایہ ہیں اور اس حوالے سے اللہ کے رسول ﷺ نے خبردار کیا ہے کہ ’’قیامت کے دن اہلِ حقوق کو اُن کے حقوق دلائے جائیں گےاوروہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا، جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔‘‘ ایک ایسے دورمیں جبکہ بدنامِ زمانہ تہاڑ جیل کے۱۵۰ ہندو قیدی مسلمان قیدیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے تہاڑ جیل کے اندر دن بھر کھانے پینے اجتناب کرتے ہوں نواب میاں جیسے لوگوں کی سفاکی اہل ایمان کو شرمسار کردیتی ہے۔ اس طرح کے واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں ؟اس سوال کا گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ دراصل اس کے پیچھے دین و عبادات کا وہ ناقص تصور کارفرما ہے جو مخصوص فرض عبادات تک محدود ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ صحابہ سے دریافت کیا ’’کیا میں تمھیں اس عمل کے بارے میں نہ بتاؤں جو روزوں ، نماز اور صدقہ سے افضل ہے؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا’’کیوں نہیں؟ اے اللہ کے رسول ﷺ!‘‘۔ آپ ؐنے فرمایا ’’آپسی تعلقات کو درست رکھنا اور آپسی تعلقات کا بگاڑ مونڈ دینے والا ہے‘‘۔دوسری روایت میں وضاحت فرمائی کہ ’’ میں نہیں کہتا کہ یہ بال مونڈ دیتا ہے ، بلکہ دین کا بالکل صاف کردیتا ہے ‘‘۔
رحمت اللعالمین ؐ نے باہمی تعلقات کو اس قدر اہمیت اسی لیے دی تاکہ اس طرح کے سانحات رونما نہ ہوں۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ امت کے اندر عبادات کا رحجان بڑھ رہا ہے لیکن افسوس کہ حقوق العباد کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی حالانکہ یہ ارشاد رسول ؐ ہے ’’ کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا : ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس دھن دولت اور دنیا کا سامان نہ ہو۔ آپﷺن فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکاۃ لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے‘ ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دےدی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں تو حقداروں اور مظلوموں کے گناہ اس شخص پر ڈال دئیے جائیں گے ، اور پھر اس کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا‘‘۔ نواب میاں جیسے لوگوں کے پیش نظر اگر آقائے نامدار ﷺ کی یہ تلقین ہو تو وہ زمین کے ایک معمولی ٹکڑے کی خاطر اپنی اخروی بربادی کا اہتمام ہر گز نہ کریں ۔ اسلام حقوق اللہ اور حقوق العباد کے درمیان توازن کا نام ہے ۔ اس کے بگڑ جانے سے رمضان کی موسم بہار خزاں رسیدہ ہوجاتی ہے۔