ڈاکٹر سلیم خان
روزے سے متعلق ارشادِ ربانی ہے ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں ‘‘۔ اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے۔ کوئی عبادت اگر رب کائنات نے لازم کردی تو کردی۔ اس پر یہ سوال نہیں پیدا ہوتا کہ ایسا کیوں کیا؟ اور ان حالات میں اس حکم کی پابندی ہونی چاہیے یا نہیں؟ لیکن یہ رب غفور و رحیم کا احسان عظیم ہے کہ وہ اپنے بندوں کی تالیف قلب کے لیے بغیر پوچھے ان سوالات کا جواب دے دیتا ہے۔ ماہِ رمضان سردیوں میں سبک خرامی سے آئے یا چلچلاتی دھوپ کے ساتھ وارد ہوجائے ہر حال میں صمیمِ قلب سے اس کا استقبال کیا جاتا ہے ۔ ہندووں کی طرح ہر تین سال میں تیرہواں مہینہ بڑھا کر مسلمان ماہِ رمضان کو کسی ایک موسم میں مقید نہیں کرتے بلکہ وہ اذنِ خداوندی کے مطابق سال بھر گردش کرتا رہتا ہے۔ موسم کی شدت و آسانی سے بے نیاز ہوکر اہل ایمان روزوں کی مشقت برداشت کرتے ہیں ۔ ایک ننھے سے بچے کے ذہن و خیال میں یہ بات نہیں آتی کہ صحرا کی اس شدید گرمی میں روزے کیسے رکھے جائیں گے؟ اس لیے کہ کا ایمان تقاضہ ہے؎
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند بہار ہوکہ خزاں لاالہ الاللہ
روزے ان اہل ایمان پر فرض کیے گئے ہیں جن کی دینداری حالات کے موافقت کی محتاج نہیں ہے۔ جو مشکل ترین آزمائش میں بھی دین پر چلنے کا عزم و حوصلہ اپنے اندر رکھتے ہیں ۔ روزوں سے متعلق یہ وضاحت کہ ’’ (یہ تم پر اسی طرح فرض کیے گئے )جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے ‘‘ہمیں بتاتی ہے کہ اس عبادت کا تعلق کسی خاص زمانے تک محدود نہیں ہے ۔ یہ اہل ایمان کی ازلی و ابدی ضرورت ہے۔ عصر ِحاضر روزوں کی معنویت پر غور کرنے سے قبل یہ سوچنا چاہیے کہ فی زمانہ انسانوں کا بشمول مسلمان سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ اس سوال ایک جواب تویہ ہے کہ نفرت و عناد بام عروج پر ہے۔ پہلے یہ زہر شہروں کی حد تک تھا اب گاوں میں پہنچ چکا ہے جہاں صدیوں سے لوگ مل جل کر ساتھ رہتے تھے ۔ ہندوستان جیسے تیسری دنیا سے نکل کر یہ آگ مغرب کے ایوانوں تک پہنچ چکی ہے۔ برصغیر ہندو پاک میں ہی نہیں بلکہ نیوزی لینڈ اور امریکہ میں بھی لوگ دھماکوں اور گولیوں کا شکار ہونے لگے ہیں۔ اس نفرت کے سبب حرص و ہوس اور حق تلفی ہے ۔ اس نے انسانوں کو ایک دوسر ے کے جان و مال کا دشمن بنادیاہے اوربحرو بر میں فساد برپا کردیاہے۔ نفسا نفسی کے عالم میں انسانیت کو انسانوں سے خطرہ لاحق ہوگیا ہے لوگ ایک دوسرے سے ڈرنے لگے ہیں ۔
نفرت، حرص و ہوس ، حق تلفی اور خوف کی بنیادی وجہ نفس کی بندگی ہے۔ روزہ نفس کی غلامی سے نکل کر اللہ کی بندگی میں داخل ہوجانے کا نام ہے۔ وہ اہل ایمان کو نفس پر قابو پانے کے فن سے آراستہ کرتا ہے ۔ قرآن حکیم میں روزوں کی فرضیت کا مقصداس طرح بیان کیا گیا ہے ’’ تاکہ تمہارے اندر تقوی کی صفت پیدا ہو ‘‘۔ تقویٰ کا ایک پہلو اللہ کی محبت ہے۔ یہی محبت اہل ایمان سے اللہ کی اطاعت کرواتی ہے۔ روزے دوران انسان بظاہر کچھ نہیں کرتا لیکن خدائے بزرگ و برتر کی اطاعت میں مبتلا رہتا ہے۔ اس سے محظوظ ہوتا ہے۔ دنیوی آلائشوں سے کٹ کر اپنے پاک پروردگار سے قریب ہوجاتا ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ جو بندہ اپنے خالق و مالک سے محبت کرتا ہو وہ اس کے بندوں سے نفرت کرے ۔ اللہ کی محبت اہل ایمان کے اندر دوسرے انسانوں سے ہمدردی و غمخواری کو جنم دیتی ہے ۔ تقویٰ کا دوسرا پہلو یعنی اللہ کا ڈر مسلمان کو نہ صرف خدا کی نافرمانی سے روکتا ہے بلکہ دوسرے انسانوں کی حق تلفی سے بھی منع کرتا ہے۔ اللہ سے ڈرنے والے اہل ایمان کے دل سے انسانوں کا ڈر ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے وہ مظلوم انسانوں کی حمایت بے خوف ہوکر ظالم اور جابر حکمرانوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے ۔ صفت تقوی ٰ کے بغیر کائنات ہستی میں عدل و قسط کے قیام کی حقیقی جدوجہد ممکن نہیں ہے۔ اقامت دین کی شرطِ اول تقویٰ اور پرہیز گاری کے حصول کا نسخہ کیمیا عبادت صوم ہے۔