سنجے نروپم! اورنگ زیبؒ تو معتصب نہیں تھے مگر !

خبر پر نظر

شکیل رشید، معروف صحافی ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز
اورنگ زیب ؒ تاریخ کی مظلوم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔
اور کچھ اس قدر مظلوم کہ سنجے نروپم جیسے سیاست داں بھی، جن کی اپنی کوئی زمین نہیں ہے، جو بے پیندی کے لوٹے ہیں ،بھک سے منھ کھول کر اورنگ زیب ؒ پر غلاظت انڈیل دیتے ہیں۔ سنجے نروپم نے نہ ہی ایک جرنلسٹ کے طور پر اچھے کام کیے اور نہ ہی ایک سیاست داں کی حیثیت سے ان کے اعمال سدھرے۔ وہ جب شیو سینا کے بھونپو’سامنا‘ کے مدیر تھے تب بھی ان کی زبان سے غلاظت ابلتی تھی اور جب شیوسینا سے نکالے گئے اور کانگریس میں شامل ہوئے تب بھی ان کے نظریا ت ’یرقانی‘یا
باالفاظ دیگر ’سنگھی‘ ہی رہے۔سامنا کے دور میں انہوں نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات خوب مجروح کیے تھے ، پاک ترین شخصیات پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی تھی۔ او ر آج بھی وہ بدلے نہیں ہیں۔ ویسے آدمی کیساہی بھیس کیوں نہ بدل لے اس کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ خود بتادیتے ہیں کہ وہ کس مٹی کا بنا ہوا ہے۔ سنجے نروپم کی مٹی میں مسلم دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اس کی تازہ مثال اورنگ زیب ؒ کے تعلق سے ان کا بیان ہے۔ انہوں نے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی کو جدید دور کا اورنگ زیب قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وارانسی(بنارس) میں جو کام اورنگ زیب بھی نہیں کرسکے تھے وہ کام مودی نے کردئیے۔سنجے نروپم کے الفاظ ہیں:’’ وارانسی آنے کے بعد میں نے دیکھا کہ اس شہر میں سیکڑوں مندروں کو تباہ کردیا گیا، وشوناتھ کے درشن کے لیے550روپے فیس لگادی گئی۔ مجھے لگتا ہے کہ پی ایم مودی ماڈرن ڈے کے اورنگ زیب ہیں، وہ (مودی) ان مندروں کو تباہ کرنے میں کامیاب رہے جنہیں بنارس کے لوگوں نے اورنگ زیب کے ظالمانہ دور حکمرانی میں بچایا تھا‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں:’’ میں ماڈرن ڈے کے اورنگ زیب کی مذمت کرتا ہوں انہوں نے بھکتوں پر ان کے بھگوان سے ملنے کے لیے جزیہ (ٹیکس) لگادیا۔‘‘ سنجے نروپم نے ان متعصب مورخین کی ترجمانی کی ہے جنہوں نے مسلم حکمرانوں کو بالعموم اوراو رنگ زیب ؒ کو بالخصوص ہندو دشمن ثابت کرنے میں ساری طاقت لگادی ہے ۔ جن کے قلم نے اپنے دور کے سب سے عظیم شہنشاہ کو متعصب اورمتشدد ثابت۔ کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی ہے۔ ان مورخین کو اگر ’بددیانت‘ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا۔ نروپم نے دوالزام لگائے ہیں، ایک یہ کہ اورنگ زیب نے وارانسی میں مندر ڈھائے، دوسرا یہ کہ وہ ہندوئوں سے ’جزیہ‘ لیتے تھے۔ جہاں تک پہلے الزام کا تعلق ہے تو ان ہندو مورخین کی ، جو انصاف پسند ہیں، کتابوں میں بے شمار حوالے اورنگ زیب ؒ کے ذریعے ہندو مندروں کو جاگیریں عطا کرنے کی مل جائیں گی۔ پنڈت بشمبھرناتھ پانڈے، ستیش چندر اور اکھلیش جائسوال کی کتابیں سنجے نروپم پڑھ لیں۔ جہاں تک مندر توڑنے کی بات ہے تو تاریخ میں صرف دو ایسے مندروں کا تذکرہ ملتا ہے جنہیں اورنگ زیب ؒ نے ڈھایا تھا۔ پہلا مندر بنارس کا’کاشی وشواناتھ مندر‘ اور دوسرا متھرا کا’ کشیورائے کا مندر‘باقی مندروں کا کوئی نام نہیں ملتا۔ علامہ شبلی نعمانی ؒ ایسے مندروں کی تعداد ۱۴؍بتاتے ہیں۔ وارانسی کے مندر کے انہدام کے لیے تاریخ نویسوں نے جوواقعہ درج کیا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اورنگ زیب بنگال جاتے ہوئے جب بنارس کے قریب سے گذرے تو ان کے ساتھ جو ہندو راجے تھے انہوں نے گذارش کی کہ ایک دن یہیں قیام کرلیا جائے تاکہ ان کی رانیاں گنگا میں غسل بھی کرسکیں اور بتوں کی پوجا بھی، اورنگ زیب ؒنے ان کی درخواست مان لی۔ رانیاں غسل اور پوجا کو گئیں لیکن جب واپس آئیں تو ایک رانی لاپتہ تھی۔ ہرطرف تلاش ہوئی ، وہ نہیں ملی۔ جب اورنگ زیبؒ کو پتہ چلا تو شدید غصے میں اپنے جاسوس رانی کی تلاش میں بھیج دیئے۔ جاسوس تفتیش کرتے کرتے وشواناتھ جی کے مندر میں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں گنیش جی کی ایک مورتی ہے جو باربار اپنی جگہ سے ہل جاتی ہے۔ جب یہ مورتی ہٹائی گئی تو اس کے نیچے سیڑھیاں برآمد ہوئیں جو ایک تہہ خانے تک جاتی تھیں، اس تہہ خانے میں رانی ملی جس کی عزت بھی لوٹ لی گئی تھی اور زیورات بھی۔ ہندوراجائوں نے اورنگ زیبؒ سے انصاف کی گہار لگائی تو اورنگ زیبؒنے یہ حکم دیا کہ وہ مقدس احاطہ جو ناپاک کردیا گیاہے پھر پاک و صاف کیا جائے،وشوناتھ جی کی مورتی، دوسری جگہ نصب کی جائے اور مندر کو توڑ کر مہنت کو قید کرلیا جائے۔ یہ واقعہ ڈاکٹر بی سیتارمیا کی کتاب میں بھی ہے، بشمبھر ناتھ پانڈے نے بھی اس کا ذکر کیا ہے اور پٹنہ موزیم کے کیوریٹر ڈاکٹر بی ایل گپتا نے بھی۔ پر سنجے نروپم کی متعصب نظر تو بس وہی دیکھتی ہے جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ متھرا کا کیشورائے مندر جاٹ باغیوں کا مرکزی مقام بن گیا تھا، اس میں ان کی خفیہ میٹنگیں ہوتی تھیں اور مغلیہ سلطنت کے خلاف منصوبے بنتے تھے۔ اورنگ زیب ؒ کے بار بار منع کرنے پر بھی جب باغی نہیں مانے تو مندر گرانے کا حکم ہوا لیکن ساتھ ہی یہ حکم بھی تھا کہ مندر کی مورتی اور پجاری کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ مندر توڑا گیا اور مورتی بڑے ہی احترام سے ناتھ دوارا(گجرات) میں نصب کردی گئی۔ دونوں واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ اورنگ زیبؒ پر مذہبی انتہا پسندی کا الزام غلط ہے۔ دونوں ہی جگہ اورنگ زیب ؒ نے مورتیوں کی حرمت برقرار رکھی ایک جگہ اپنے ہندوئوں راجائوں کی درخواست پر کارروائی کی اور دوسری جگہ باغیوں کی سرکوبی کے لیے۔ بالکل ویسا ہی معاملہ تھاجیسے گولڈن ٹیمپل پر اندرا گاندھی کے دور میں فوج نے چڑھائی کی تھی۔ وارانسی میں صرف ایک مندر کا انہدام ہوا جبکہ سنجے نروپم کا الزام ہے کہ بہت سے مندر اورنگ زیب ؒ نے ڈھائے۔ یہ تاریخ سے بلکہ اصلی تاریخ سے نا واقفیت کا نتیجہ ہے۔ رہا ’جزیہ‘ کا معاملہ تو تو یہ بالکل ویسا ہی ٹیکس تھا جیسا کہ آج شہریوں سے لیا جاتا ہے تاکہ انہیں ہر طرح کی سہولیات مل سکیں۔ اکھلیش جائسوال اورنگ زیب ؒ پر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :’’اسلامی قانون کے مطابق مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی حکومت کی مضبوطی میں اپنا تعاون دے اور ہندوستان میں ہندو طبقہ اس فرض سے آزاد تھا اس آزادی کے عوض ’جزیہ‘ کا انتظام کیا گیا اس طرح غیر مسلموں سے ’جزیہ‘ وصولنے کا اختیار مسلم حکمرانوںکو قانونی طور سے حاصل تھا اس کے علاوہ ’جزیہ‘ لگایا تو گیا اور صول بھی کیا گیا لیکن اس بات کا ذکرکہیںنہیں ملتا کہ تمام ہندوئوں سے ’جزیہ‘ وصول کیا گیا ہو‘‘۔ یہاں مودی دور میں اور اس سے پہلے کانگریس دور میں سب سے ’ٹیکس‘ وصول کیاجاتا رہا ہے۔ اورنگ زیب ؒ نے تو عورتوں ، بچوں، بیماروں، غریبوں، ملازمین اور بوڑھوں کو ’جزیہ‘ سے چھوٹ دے رکھی تھی لیکن آج کسی کو بھی ٹیکس سے چھوٹ نہیں ہے۔ سنجے نروپم جی ! آپ نے مودی کو جدید دور کا اورنگ زیب ؒ قرار دے کر ہندو ووٹ بٹورنے کا کھیل کھیلا ہے۔ایک سوال ہے، آپ نے یہ بیان کچھ پہلے کیوں نہیں دیا؟ کیا آپ کو یہ خطرہ تھا کہ رائے دہندگان ناراض ہوکرآپ کو ووٹ نہیں دیں گے اس لیے؟ تو سن لیں، مسلمان ویسے بھی آپ کو ووٹ نہیں دیتے ۔ کیونکہ وہ آپ کو خوب جانتے ہیں۔