سری لنکا بم دھماکے اور مسلمان

اداریہ
جدید مرکز، لکھنؤ کے تعاون سے تحریر پیش خدمت ہے
مؤرخہ ۵ تا ۱۱ مئی،۲۰۱۹

حسام صدیقی
اللہ نے قرآن کےذریعہ انسانوں خصوصاً اسلام کے ماننے والوں کو ویسے تو کئی جگہ بے گناہوں اورغیر مسلم لوگوں پر کس بھی قسم کی زیادتی کرنے سے سختی سے منع کیا ہے،یعنی روکا ہے۔ دو جگہوں پر ایک سورہ عراف میں جن پانچ باتوں یا عمل کو حرام قرار دیا ہے ان میں ایک ہے ‘کسی کی بھی جان، مال اور آبرو کے خلاف زیادتی کرنا۔ ایک جگہ سخت ہدایت دی ہے کہ کسی بھی دوسرے مذہب کی برائی نہ کرو، اگر کوئی آپ کے مذہب کے خلاف بات کرتا ہے، تو اس سے فوری طور پر لڑنے کے بجائے، اس سے کہہ دو تمہارا دین تمہیں مبارک-ہمارا دین ہمیں مبارک۔ اس کے علاوہ بے شمار ہدایات کے ذریعہ اللہ نے مسلمانوں کو دو سروں پر زیادتی کرنے اور ان کے مذہب کو برا کہنے سے روکا ہے۔پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حشر کے دن جن لوگوں کی حمایت میں کھڑے ہونے کی بات کہی ہے اس میں انتہائی اہم یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کی حمایت میں کھڑے ہوں گے جن پر کسی مسلمان نے ظلم کیا ہوگا۔ ایسے مذہب کو ماننے والے اور اللہ کی نازل کردہ کتاب قرآن شریف کو پڑھنے والے اگر دہشت گردی میں شامل ہوتے ہیں یاخودکش بم بن کر سینکڑوں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں تو ایسے واقعات پر زبردست تشويش اور فکر ہونا لازمی ہے۔ سری لنکا میں ایسا ہوا ہے وہاں عیسائیوں کے ایسٹر جیسے اہم ترین تہوار کے موقع پر کولمبو کے سب سے بڑے چرچ اور مہنگے انٹرنیشنل ہوٹلوں میں سیریل بم دھماکے کرکے ڈھائی سو سے زیادہ بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔یہ دھماکے جن نو خود کش انسانی بموں کے ذریعہ کئے گئے وہ سبھی مسلمان نکلے ان میں ایک حاملہ خاتون بھی شامل تھی۔یعنی ان مسلمانوں نے یہ شرمناک گھناؤنی اور تکلیف دہ حرکت کی جن کےاللہ نے ان سے کہا ہے کہ زمین پر یعنی دنیا میں كبدامنی مت پھیلاؤاور یاد رکھو کہ ایک بے گناہ کا قتل کرنا پوری انسانیت کے قتلکرنے کے برابر ہے۔
آج کی دنیا میں، دہشت گردی کےجتنے بھی واقعات پیش آرہے ہیں نیوزی لینڈ کی مسجدو ںمیں فائرنگ کےجیسے چند کو چھوڑ دیں تو باقی سبھی میں مسلمانوں کا ہاتھ نکلتا ہے۔کبھی کہا جاتا تھا کہ زیادتیوں کا شکار اور غربت کے مارے کم پڑھے لکھے نوجوانوں کو بہکا کرکچھ طاقتیں انہیں دہشت گردی کےلئے تیار کرتی رہتی ہیں لیکن سری لنکا میں توایسا نہیں دیکھا گیا نہ تووہاں مسلمانوں پر گجرات، عراق اور لیبیا اورشام کے مسلمانوں کی طرح ظلم وزیادتیوں کے واقعات پیش آئے اور نہ ہی وہاں خود کش انسانی بم بنے نوجوانوںکا تعلق غیر تعلیم یافتہ کنبوںسے تھا۔ان میںایک عبداللطیف نے لندن اور آسٹریلیاسے تعلیم حاصل کی تھی۔ دوسگے بھائیوں، الہام ابراہیم اور امساط ابراہیم، اور امساط کی حاملہ بیوی فاطمہکا تعلق ایک بڑے تاجر اور ایک امیر خاندان سےتھا۔ باقی سبھی پیسے والے اور پڑھے لکھے گھرانوں سے ہی تعلق رکھتے تھے۔آخر انہیں خود کش انسانی بم بنا کر بے گناہوں کا خون بہانے اور حرام موت مرنے کی کیا ضرورت پر گئی تھی؟یہ ایک بڑا سوال ہے اور اس سوال کاجواب تلاش کرناپوری دنیا خصوصاً مسلم ملکوں کی ذمہ داری ہے۔مسلم معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات پر نظر رکھے کہ کیا یہ اسلامی یا دینی تعلیم دلانے والے مراکز میں کچھ اسلام دشمن اور انسانیت دشمن طاقتیں گھس پیٹھ کرکے تعلیم حاصل کرنے والے بچوں اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے کا کام تو نہیں کررہی ہیں؟آخر یہ کون سی طاقتیں ہیں جو پڑھے لکھے اچھے گھرانوں کےنوجوانوں کو دہشت گردی جیسی حرکتوں میںشامل ہونے کےلئے تیار کر لیتی ہیں۔کیا یہ سمجھا جانا چاہئے کہ مسلم معاشرہ اپنے بچوں اور نوجوانوں پر نظر رکھنے میں ناکام رہا یا مسلم معاشرہ اپنے بچوںاور نوجوانوں کو کسی انٹر نیشنل سازش سے بچانےمیں ناکام ہو گیا ہے۔؟
مسلم معاشرہ اپنے بچوں اور نوجوانوں پر نظر رکھنے میں ناکام رہا ہے یا نہیں اس پر بحث ہو سکتی ہے لیکن اس حقیقت پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا کہ دنیا بھر کے دہشت گردوں کے تار آخر میں امریکہ سے جاکر ملتے ہیں۔ کیا آج دنیا میں ایک بھی ملک یاکوئی لیڈر ہے جو کھل کر کہنے کی ہمت کر سکے کہ دنیا بھر میں دہشت گردی پیدا کرنے کےلئے اگر کوئی ملک ذمہ دار ہے تو وہ امریکہ ہے۔ کون نہیں جانتا کہ برصغیرہند میں دہشت گردی کی شروعات سری لنکا سے ہی ہوئی ۔ایل ٹی ٹی کو کس نے کھڑا کیا تھااسے ہتھیار اور پیسہ کس نے فراہم کیا تھا۔ افغانستان سے سوویت یونین کو بھگانے کے بہانے آدھے سے زیادہ افغانستان میں مجاہدین کی شکل میں دہشت گردوں کو پیدا کرنے کےٹریننگ سینٹرکس نے بنائے تھے؟انسانیت کو تباہ کرنے والے ایٹمی ہتھیار ہونے کی افواہ پھیلاکر محض پٹرولیم پر قبضہ کرنے کی بد نیتی سے عراق پر حملہ کرنے اور دس لاکھ سے زیادہ بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرانے کا گناہ کس نے کیا۔عراق میں کوئی ہتھیار نہیں تھا امریکہ اور برطانیہ نے دنیا سے جھوٹ بول کر اس پر حملہ کیا یہ بات برطانیہ کے ہی ایک تحقیقاتی کمیشن نے دنیا کو بتائی۔وہ رپورٹ آنے کے بعد دنیا کے کس ملک یا لیڈر نے امریکہ سے سوالات کرنے کی ہمت دکھائی؟ جواب ہے بالکل نہیں تو کیا پوری دنیا امریکہ سے کچھ نہ بول کر دہشت گردی کو مضبوط کرنے کی گنہ گار مانی جائے گی۔
ہماری سمجھ میں یہی آ رہا ہے کہ پوری دنیا کے مسلم معاشرے کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ مسلمان اپنی بڑی تعداد میں ایسےنوجوانوں اور بچوں کو امریکی سازش اور امریکہ کی ناجائز دولت کے چکر میں پھنسنے سے بچا نہیں پائے۔ اب تو پوری دنیا کے مسلمانوں کو اس بات پر خصوصی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ اپنے بچوں، نوجوانوں اور مذہبی تعلیم کے اداروں کو امریکی سازش سے بچائے رکھیں۔ کیا دنیا کو یہ سوال نہیں کرنا چاہئے کہ آج دنیا میں آئی ایس آئی ایس کے نام سے جو لوگ دہشت گردی میں مصروف ہیں اور جس کے بہانے بھارت جیسے ملک میں مسلم نوجوانوں کو اکثر دہشت گرد بتانے کام ایجنسیاں کرتی رہتی ہیں اس آئی ایس آئی ایس کے لئے اسلحہ کون سپلائی کر رہا ہے۔کیا آئی ایس آئی آیس کوجدید ترین ہتھیار دے کر اس کے عوض میں تیل کی اسمگلنگ نہیں کرائی جا رہی ہے۔؟
گزشتہ مہینے نیوزی لینڈ کی دو مسجدوں میں نماز کے دوران حملہ کرکے ایک بہکے ہوئے عیسائی شخص نے بڑی تعداد میں مسلمانو ںکو موت کے گھاٹ اتا ر دیا تھا۔اس واقعہ کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا ارڈرن اور وہاں کے عوام نے انسانیت کے جس جذبہ کامظاہرہ کیا تھا وہ مظاہرہ دراصل دنیا میں دہشت گردی کے کاروباریوں کو اچھا نہیں لگا تھا تبھی سے اس بات کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ دہشت گرد طاقتیں جنوب ایشائی ممالک میں کسی نہ کسی جگہ کوئی حرکت ضرور کریں گی۔ کیوں کہ ان طاقتوں کو انسانی بھائی چارہ پسند نہیں ہے۔دہشت گرد طاقتیں سری لنکا کو تو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو گئیں ہیں اب خطرہ بھارت کو بھی ہے۔خفیہ ایجنسیاں تو یقیناً رات دن ایک کرکے اس کوشش میں لگی ہوں گی کہ بھارت میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آنے پائے لیکن اب ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ پورے ملک کے تمام لوگ چوکنا رہیں۔ مسلمانوں کو زیادہ چوکنا رہنا ہوگا۔ اگر سماج میں کہیں کوئی شخص مشتبہ دکھے تو پہلے اپنی سطح سے ہی اس پر نظر رکھیں اور اگریہ محسوس ہو کہ مشتبہ شخص گڑ بڑ کر سکتا ہےیا کر سکتے ہیں تو وہ ایسے لوگوںپر سخت نظر رکھنے کےلئے مقامی پولیس کو بھی اس کی اطلاع ضرور دے۔اب اس بات کی بھی سخت ضرورت ہے کہ مسلم نوجوانوں اور بچوں کو کسی بھی لالچ میںپھنسنے اور گمراہ ہونے سے بچایا جائے۔