ڈاکٹر سلیم خان
یہ اس وقت کی بات ہے جب پتھوڑا گڑھ کے لوگ گھوڑوں، گدھوں اور خچر پر سفر کرتے تھے ۔ گاوں کے چودھری للن خان جب پڑوس کے پنت نگر سے واپس آئے تو انہوں نے پنچایت کے اہم ارکان کلن شیخ اور جمن قریشی کو ایک دائرہ نما شئے دکھائی کر پوچھا یہ کیا ہے؟ دونوں کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا بلا ہے؟ للن نے انکشاف کیا کہ یہ پہیہ ہے۔ پنت نگر کی شادی میں دولہا سنت نگرسے اپنے والدین کے ساتھ بگھی میں سوار ہوکر آیا اور اپنی نوبیاہتا بیوی کو اس میں بٹھا کر لے گیا۔ کلن نے سوال کیا یہ بگھی کیا ہے؟ للن بولا دوپہیوں کودرمیان سے جوڑا کر اس پر ایک تختہ سا بچھا نے کے بعد آگے گھوڑے کو جوت دیا جاتا ہے۔ جمن نے حیرت سے پوچھا وہ گھوڑا تھا یا جن جو چار لوگوں کو اٹھا کر لے گیا؟ للن نے بتایا وہ گھوڑا دراصل اپنے گھوڑوں سے بھی کمزور تھا مگر یہ اس پہیے نے گھوڑے کا بوجھ اس قدرہلکا کردیا تھا کہ وہ بہ آسانی بگھی کو کھینچ کر لے گیا ۔
کلن بولا تب تو ہمیں بھی پنت نگر سے بگھیاں منگوا نا چاہیے تاکہ سفر میں سہولت ہوجائے ۔ للن بولا جی نہیں میں چاہتا ہوں کہ ہم تیار بگھی منگوانے کے بجائے خود اپنے لیے بنائیں ؟ جمن نے سوال کیا لیکن اس زحمت سے کیا حاصل ؟ للن بولا دیکھو پنت نگرمیں لوگوں کے عقائد ہم سے مختلف ہیں ۔ان کی بگھی پر دیوی دیوتاوں کی تصاویر بنی ہوتی ہیں ۔ مؤحدین کے یہاں ان کا کیا کام ؟ کلن بولا اس میں کون سی مشکل ہے ۔ ہم ان پر گھروں کی مانند اس کی بھی پتائی کردیں گے تاکہ ساری مورتیاں چھپ جائیں ۔ للن نے کہا لیکن ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ ان کے یہاں گوشے پردے کا رواج نہیں ہے۔ نہ خواتین ڈھکی چھپی رہتی ہیں اور نہ بگھی پر پردہ ہوتاہے ۔ ہمیں تو ایسی بگھی بنانی ہوگی جس میں اپنی باحجاب خواتین آرام سے بیٹھ سکیں ۔ جمن بولا جی ہاں لیکن اگر آپ کم ازکم دو پہیے لاتے تو ہمارا کام آسان ہوجاتا ۔ ہم لوگ اس کے اوپر اپنے لحاظ سے آرائش و زیبائش کردیتے ۔
للن بولا نہیں جمن اگر میں دو پہیے لاتا تو یہ سہل پسندی ہمیں ہمیشہ کے لیے ان کا محتاج بنا دیتی ۔ میں یہ نہیں چاہتا اس لیے نمونے کے طور پر ایک لے آیا ۔ اب ہمیں بگھی اور پہیہ دونوں بنانا ہوگا تاکہ اس معاملے میں ہم لوگ خودکفیل ہوں ۔ کلن بولا اور ہاں یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ دیگر گاوں میں اسے برآمد کریں ۔ للن نے تائید کی کیوں نہیں بالکل ہوسکتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ اس طرح بگھی بنانے کی ذمہ داری کلن کو سونپ دی گئی اور وہ کام زور و شور سے شروع ہوگیا ۔ للن نے بڑی جانفشانی سے بگھی کا نقشہ بنایا اور خوب غور خوض کے بعد اسے حتمی شکل دی ۔ اس کے لیے ضروری سازو سامان جمع کرنے کا کام جمن کو سونپ دیا گیا ۔ اس نے بڑی توجہ سے یہ ذمہ داری ا داکی اور اس طرح باہمی تعاون و اشتراک سے پہلی بگھی بن کر تیار ہوگئی لیکن جب اسے باہر لایا گیا تو وہ اوبڑ کھابڑ کچے راستوں میں ڈولنے اور دھنسنے لگی ۔ اس کے لیے توازن قائم رکھنا مشکل ہوگیا۔
للن کو یاد آیا پنت نگر میں بگھی کے لیے سڑک نما راستے بنائے گئے تھے جس پر وہ ہوا سے باتیں کرتی تھی ۔ اس نے سڑک کا بہترین منصوبہ بنایا۔ سڑکیں بچھانے کی ذمہ داری جمن کو سونپی گئی اور دیکھتے دیکھتے پتھوڑا گڑھ میں سڑکوں کا جال بچھ گیا ۔ اس بیچ کلن کئی گاڑیاں بنا چکا تھا ۔للن نے عوامی مواصلات کا نہایت منفرد و موثر نظام قائم کیا ۔ گاوں والوں نے پنچایت کو گھوڑےمہیا کیے۔ کلن کی نگرانی میں کچھ لوگوں کو بگھی چلانے کی تربیت دے کر کام پر لگا دیا گیا۔ اس کے بعد کلن بنے بنائے نقشے کے مطابق حسبِ ضرورت بگھیاں تیار کرکے دے دیتا ۔جمن نت نئی سڑکیں بچھاتا جاتا۔ للن کے غورو فکر کی ضرورت سے بے نیاز ہوکرپتھوڑا گڑھ کا مواصلاتی نظام میکانکی انداز میں چل پڑا ۔ کلن کی مصروفیت اور جمن کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ۔ کیا یہ کہانی عصر جدید پر بھی منطبق ہوتی ہے؟ کیا اس کا اطلاق انفرادی سے لے کر اجتماعی معاملات تک نہیں ہوتا ؟ کیا ہم لوگ بھی للن کو بھلا کر کلن کی بگھی میں جمن کی سڑک پر نہیں رواں دواں نہیں ہیں؟ اور کیا ہمیں بھی پتھوڑا گڑھ کی مانند اپنے مواصلاتی نظام پرنازنہیں ہے؟