جاویدجمال الدین
میں نے جمعہ کو ایک تصویر پوسٹ کرتے ہوئے ایک واقعہ کو پیش کرنے کا وعدہ کیا تھا ،لیکن رائے دہندگان کی بیداری اور ووٹنگ کا فیصد بڑھانے کے لیے جاری مہم میں شامل رہنے کے سبب مصروف رہا ،خیر آج مہاراشٹر میں چوتھے اور آخری مرحلہ کی مہم ختم ہونے کے بعد مجھے موقعہ مل گیاہے کہ میں اپنے ضمیر کی آواز پر کچھ لکھوں،کافی برداشت کے بعد اور جب پانی سرکے اوپر پہنچ گیا ،تب میں نے قلم اٹھایا ہے ، دوستوں،اردوداں طبقہ اس بات سے واقف ہے کہ حال میں سوشل میڈیا پر اردو والوں کے ایک گروہ نے تو حد کردی اور انجمن اسلام جیسے ملت کے مایہ ناز ادارہ کے شعبہ ( اردوریسرچ انسٹی ٹیوٹ )کے سنجیدہ ،باشعور،شریف النفس اور مخلص انسان ،سابق صدر شعبہ اردو یونیورسٹی آف ممبئی پروفیسر عبدالستاردلوی کو اس ضعیف العمری اور پیرانہ سالی میں نشانہ بنانا شروع کردیا اوریہ لوگ جس شخص کی حمایت کررہے ہیں ،وہ کسی کو خاطرمیں نہیں لاتا ہے ،جناب عبدالستار دلوی کے بارے میں میں نے جو لکھا ہے ،اس کے لیے کوئی بھی شخص قسم کھا سکتا ہے ۔ان میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔
میں اپنی کتاب ’عبدالحمید انصاری :انقلابی صحافی اور مجاہد آزادی ‘کا وہ صفحہ اس تحریر کے ساتھ پوسٹ کررہا ہوں جس میں میں نے کتابچہ میں دلوی صاحب کا ذکر کیاہے ،اور نہ کرنا ان کے ساتھ ناانصافی ہوتی ،دراصل تعلیمی میدان میں سکنڈری تک کچھ وقفہ رہا ،لیکن جب ہائرسکنڈری میں کامیابی حاصل ہوئی توروزنامہ انقلاب نے گلے لگا لیا اور انقلاب میں اپنی صلاحیت ابھارنے کا بھرپورموقعہ ملا ،ملازمت اور پڑھائی کا سلسلہ ساتھ ساتھ جاری رہا ،مہاراشٹر کالج سے گریجویشن بھی کرلیا ،کیونکہ ملازمت مستقل ہوچکی تھی ،اس لیے مزید پڑھائی کے بارے میں کچھ سوچا نہیں تھا ،لیکن ایک تقریب میں عبدالستار دلوی صاحب سے ملاقات ہوگئی اور ان کے مشورے پر میں نے پہلے ایم اے کرنے کا فیصلہ کیا ،اس میں ہماری کمپنی مڈ ڈے ملٹی میڈیا نے بھرپور تعاون کیا اور میں نے پوسٹ گریجویشن کرلیا جس کے بعد ایم فل کرنے کا حوصلہ بھی مجھ میں پیدا ہوگیا ، میں نے اپنی اخباری مصروفیت کے پیش نظرآسانی کی خاطر انقلاب کی صحافتی خدمات جیسے موضوع کا انتخاب کیا تھا ،پرانی بوسیدہ فائلوں میں مجھے ریسرچ کے دوران بانی انقلاب عبدالحمید انصاری صاحب کاایک خط ہاتھ لگ گیا ،جس میں انہوں نے 1947میں پاکستان جانے کے مطالبہ کو مسترد کردیا تھااور ہندوستان رہ کر مسلمانوں اور قوم کی خدمت کرنے کا اعلان کیا تھا ،یہ خط سن 2000کے انقلاب سالگرہ نمبر میں شائع ہوگیا،اس کا کریڈٹ شاہد لطیف کو جاتا ہے اور مجھے سنڈے مڈڈے میں انگریزی ترجمہ شائع ہونے پر مرحوم بانی انقلاب کی سوانح عمری لکھنے کی ذمہ داری مالکان جناب خالدانصاری اورجناب طارق انصاری نے سونپ دی،انگریزی ترجمہ فصیل جعفری صاحب نے کیا تھا اور اللہ کے فضل وکرم سے میں نے جناب عزیز کھتری اور مرحوم فضیل جعفری کی حمایت سے اس کا کام بخوبی انجام دی تھی ۔اردومیں تحریرمیری کتاب کا بعد میں انگریزی ترجمہ بھی کرایا گیا۔
میرا اتنا تفصیل میں جانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر میرے محسن اور مخلص دلوی صاحب مجھے ایم اے کرنے کا مشورہ نہیں دیتے تو مجھے کتاب لکھنے کاموقعہ نہیں ملتا تھا ،مجھے صحافت کے ساتھ جو ترقی اور شہرت دوسرے شعبوں میں ملی ،اس میں سری کرشنا رپورٹ کے اردوترجمہ اور انصاری صاحب کی سوانح عمری کو بھی اہمیت حاصل ہے ۔میں ان تمام افراد کا مشکور وممنون ہوں جنہوںنے دونوں کاموں میں مجھے تعاون دیا اور مجھے سرفرازی عطا ہوئی ۔
جناب عبدالستاردلوی صاحب کیخلاف یہ نام نہاد اردووالوں کا گروہ ایک ایسے متنازع آدمی کی حمایت میں سرگرم ہے ،،جوکسی کو خاطر میں نہیں لاتا ہے ،غرور،تکبر اور گھمنڈ اس میں کوٹ کوٹ کا بھرا ہے ،مرحوم فضیل جعفری ہمیشہ اسے کہتے تھے کہ ”اپنے سرکے گھنے بالوں کوکم کرنے کے ساتھ ساتھ اس سوچ کو بھی کم کردیں کہ انہیں سب کچھ آتا ہے اور دوسرے بے وقوف ،ان پڑھ اور جاہل ہیں۔“
بے چارے کی ایک پوری تاریخ ہے ،موصوف نے پہلے ایک ہفتہ روزہ میں اپنے مدیر کو نہیں بخشا اور مرحوم محمود ایوبی نے ایک گفتگو میں مجھے بتایا تھا کہ اس نے مرحوم ہارون رشید کے لیے کرسی تک اٹھا لی تھی ،جس میں ایوبی صاحب کو بھی چوٹ لگی تھی،یہ سچائی ہے کہ اردوریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سابق ڈائرکٹر اور مرحوم ڈاکٹر محمد اسحق جمحانہ والا کی سوانح عمری کے مصنف ڈاکٹر آدم شیخ پر بھی ان صاحب نے مبینہ طورپرحملہ کیا تھا اور ڈاکٹر جمخانہ والا کے چپراسی کو استعفیٰ سونپ کا راہ فرار اختیار کرلی تھی ،دراصل مرحوم ایک میٹنگ میں تھے اور موصوف کو صبر نہیں ہوا کہ میٹنگ کے ختم ہونے کا انتظارکرلیتے تھے،خیر انہیں انسٹی ٹیوٹ کا دوبارہ ریسرچ افسر بنایا گیا ،اس کے لیے موصوف کو مرحوم فضیل جعفری کو دعاءدینا چاہئیے کہ مرحوم جعفری صاحب کے کہنے پر میں ہی ڈاکٹر جمخانہ والا کے پاس سفارش لیکر پہنچا تھا اور انہیں دوبارہ گھر سے بلایا گیاتھا۔میں موصوف کا دشمن نہیں ہوں ،میری اس کتاب میں ان کا بھی ذکر ہے اور میں نے اس کے حوالے سے مرحوم قاضی اطہر مبارکپوری کا احوال پیش کیا ہے۔
دوستوں ،میری اس تحریر کا مقصد صرف یہ ہے کہ اردوادارے کو ان سب تحریکوں سے نقصان پہنچ رہا ہے ،مجھے نہیں پتہ کہ موصوف نے کتنے بچوںکی حوصلہ افزائی کی ہے اور کتنوں کو اپنے جیسا ’پڑھاکو ‘بنانے کی تحریک دی ہے ،میں موصوف کی علمی قابلیت اور صلاحیت کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا ہوں ،لیکن مجھے یہ کہنے دیجئے کہ ہمیں اپنے علم ،قابلیت اور صلاحیت کی بنیادپر دوسرے کو کمتر اور چوراورڈاکوﺅںسمجھنے کا کوئی حق نہیں ہے ،اس تحریک کو بند ہونا چاہیئے اور اردوزبان کے فروغ وترقی کے لیے کام کرنا ہوگا،کیونکہ حال میں ایسی خبریں منظرعام پر آئی ہیں کہ ممبئی میں بے شمار اردوذریعہ تعلیم کے اسکول بند ہوتے جارہے ہیں ۔اور خود کو اردوکا رکھوالا کہنے والے سرپھٹول میں مصروف ہیں ۔ایک عظیم ادارے میں بیٹھ کر اس ناٹک کو بند ہوناچاہیئے ۔
javedjamaluddin@gmail.com
9867647741