کانگریس کی جنرل سکریٹری بننے کے بعد پرینکا گاندھی کل دوسری مرتبہ عوام سے رو برو ہوئیں۔ جنرل سکریٹری کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جب انہوں نے لکھنؤ میں کانگریس صدر راہل گاندھی کے ساتھ روڈ شو کیا تھا تو اس دن بھی انہوں نے عوام پر جو اپنی چھاپ چھوڑی تھی اس نے مخالفیں میں بے چینی پیدا کر دی تھی۔ کل جب انہوں نے گجرات میں پہلی مرتبہ اتر پردیش سے باہر عوامی جلسہ سے خطاب کیا تو انہوں نے نہ صرف اپنی چھاپ چھوڑی بلکہ انہوں نے قومی سیاست کے لئے ایک نئی راہ پیش کی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں یہ واضح کر دیا کہ عوام اور سیاسی رہنماؤں کی ترجیحات کیا ہونی چاہییں۔ پرینکا نے نہ صرف ترجیحات پر روشنی ڈالی، بلکہ اپنے خطاب کے ذریعہ یہ بھی واضح طور پر سمجھا دیا کہ سیاسی رہنماؤں کو کن مدوں کو کس طرح عوام کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔
معاشی طور پر آج ہم کہاں کھڑے ہیں، دفاعی طور پر ہم کتنے مضبوط ہیں، بے روزگاری کی وجہ سے نوجوانوں کے والدین کی کیوں نیندیں اڑگئی ہیں، کسان اپنے کھیت سے گھر واپس آنے سے کیوں ڈرتا ہے یا چھوٹا کاروباری اپنے ملازمین کے چہروں پر خوشی کیوں نہیں دے پا رہا، یہ قومی مدے ضرور ہیں لیکن اس سے بڑا مدا سماج کا بنیادی کردار اور تانا بانا ہے۔ مندرجہ بالا تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں، لیکن اگر ملک کا قومی کردار اور سماج کا تانا بانا ٹوٹ گیا تو اس کا ٹھیک ہونا بہت مشکل ہو جائے گا۔ گزشتہ پانچ-چھ سالوں میں ملک میں جس طرح کا شور برپا ہے اس نے ہمارے بنیادی قومی کردار کو تباہی کے کگار پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔
سیاست ہر ملک اور قوم کا بنیادی کردار ہوتا ہے مگر اس کے بھی کچھ اصول اور ضابطہ ہوتے ہیں، ہمارے سیاسی رہنماؤں نے گزشتہ 6 سالوں میں ان اصولوں اور ضوابطوں کو تارتار کر دیا ہے۔ وہ سیاسی رہنما جو اقتدار کے سب سے اعلی مسند پر بیٹھے ہوں، وہ اگر بات کہنے کے لئے شور اور صرف منفی تنقید کا سہارا لیں یا چیخ و پکار کریں اور بات ایسے کریں جس سے یہ محسوس ہو کہ کوئی ایسا شخص بات کر رہا ہو جس کو کبھی اچھے لوگوں میں بیٹھنے کا موقع نہیں ملا ہو۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اگر اتنے اعلی عہدوں پر بیٹھے اشخاص اپنی گفتگو اور خطاب کا معیار خراب کر دیں گے تو لاشعوری طور پر عوام کی طرز گفتگو بھی اسی طرح کی ہو جائے گی۔ غلط بیانی، ایسے وعدے کرنا جن پر عمل نہ کیا جا سکے، اقتدار کے دوران صرف سابق حکومتوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنانا، دھرنے اور مظاہرہ کرنا کسی بھی حکومت اور سماج کے لئے اچھے نہیں ہوتے، ہمیں پتہ بھی نہیں لگتا کہ کب یہ بری عادتیں ہماری سماجی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔