تیرا روٹھنا ادا ہے میرا کام ہے منانا

’’خوداحتسابی‘‘
سید حسین شمسی


اشاعت: جمعہ، 22 فروری 2019


سیاست میں اگر کوئی چیز مستقل ہے تو وہ ہے ’مستقل مفاد‘۔۔۔ پُلواما واقعے کے بعد بی جے پی (حکومت وقت) نے پہلی فتح اپنے ’دشمنِ جانی‘ ادھو ٹھاکرے پر حاصل کی اور وہ بھی ایک بڑے بھائی کی حیثیث سے؛ یعنی مہاراشٹر کے لوک سبھا انتخابات میں ’پچیس میرے، تیئیس تیرے‘۔ بال ٹھاکرے کے زمانے میں ’کملا بائی‘ (بال ٹھاکرے کا اپنے حلیفوں کو پکارنے کا بھی انداز نرالا تھا) کو ہمیشہ ہی شیو سینا کا حلیف سمجھا گیا، نہ کہ اس کے برعکس۔ سنیئر ٹھاکرے نے ہمیشہ یہ بات واضح رکھی کہ مہاراشٹر میں وہ ’بڑے بھائی‘ ہیں۔ ان کی بات کاٹنا یا انہیں کسی طور سیاسی پسپائی سے دو چار کرنا بی جے پی کے بس کی بات نہیں تھی۔ چاہے جیسے بھی ہوں ’اصول پسندی‘ ہو تو بندہ اس کے ساتھ کھڑا رہتا ہے، لیکن اگر اصول ’مستقل مفاد‘ ہو، تو یہی سب کچھ ہوتا ہے، جو ہوا۔

مصلحت پسندی، موقع پرستی اور مفادپرستی یہ وہ الفاظ ہیں جن کا استعمال سیاسی گلیاروں میں بکثرت ہوتا ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سیاست میں ان لفظوں کا عملاً و خصلتاً اظہار ’’جزولاینفک‘‘ مانا جاتا ہے۔ یہ وہ چند عوامل وخصائل ہیں جو بڑے سے بڑے سیاسی دشمن کو اپنی حریفائی ترک کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اس کا تازہ ترین عملی نمونہ 18 فروری کو ممبئی میں میڈیا کے سامنے شیوسینا اور بی جے پی نے پیش کیا۔ تقریباً ساڑھے چار سال تک ایک دوسرے کو ہدف تنقید وملامت بنانے والے ادھو ٹھاکرے اور امیت شاہ ایک دوسرے سے ایسا بغلگیر ہوئے مانو ان کے مابین کبھی کوئی ناچاقی یا خلش رہی ہی نہ ہو۔ اگر اسے کچھ ڈرامائی تصورات کے ساتھ پیش کریں اور پس منظر میں المناک موسیقی بج رہی ہو تو کچھ کچھ ’بھرت ملاپ‘ کا سماں بھی بندھ جائے گا۔ آنکھیں نم ہو جائیں گی، لیکن اب رونے کا وقت کہاں ۔۔۔ انتخابات سر پر ہیں۔

گزشتہ ساڑھے چار برسوں تک شیوسینا اور بھاجپا نے ایک دوسرے کے خلاف سخت ترین جملوں کا استعمال کیا، رکیک حملے و نازیبا کلمات اس انتہا کو پہنچ گئے تھے کہ ایسا لگنے لگا تھاکہ اب ایک دوسرے سے قربت محال ہے۔ کئی بار تو یوں لگا کہ حکومت کسی اور شانے پر منتقل ہونے کو ہے۔ لیکن سیاسی داناں خوب جانتے تھے کہ آج نہیں تو کل ان کی مصلحت پسندیاں ملنے پر مجبور کردیں گی۔ اس32 سالہ اتحاد میں کئی بار 36 کا آنکڑا ہوا، زیادہ تر شیو سینا کی جانب سے تلخ و بغاوتی تیور اختیار کیا گیا اور بی جے پی نے دور رس مفادات کے پیشِ نظر ہمیشہ ناز برداری سے کام لیا اور شیوسینا کو منانے کا کام کیا۔ 2014 پارلیمانی انتخابات کے بعد دونوں پارٹیوں کے مابین مسلسل سرد جنگ اس حد تک بڑھی کہ پچھلا ممبئی میونسپل کارپوریشن انتخاب دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کے خلاف لڑا۔ اس کے بعد مسلسل نوک جھونک بڑھتی گئی، نوبت بایں جا رسید ادھو ٹھاکرے نے راہل گاندھی کے نعرہ ’’چوکیدار چور ہے‘‘ کو بڑے زور شور سے بلند کیا، اسی طرح کانگریس کی جانب سے اٹھائے گئے رافیل ایشو کو بھی شیوسینا نے بڑی شدت سے اچھالا، کئی بار تو ایسا لگا کہ حقیقی اپوزیشن رول شیوسینا ہی ادا کر رہی ہے۔ ادھو نے ایک موقع پر بی جے پی لیڈروں کو ’’افضل خان کی فوج‘‘ سے تشبیہ دی۔ اسی طرح مہاراشٹر کے ایک اجلاس عام میں امیت شاہ نے اگر یہ کہا کہ شیوسینا ہمارے ساتھ مل کر نہیں لڑتی ہے تو ایسی پٹخنی دیں گے کہ اس کا وجود ختم ہوجائے گا۔ جواباً ادھو کہتے ہیں کہ ’’ہم ایسا پٹخیں گے کہ ٹکلا پھوٹ جائے گا‘‘۔

مہاراشٹر کے دیہی علاقوں میں ایک کہاوت ہے ’تُو مارے جیسا کر، میں روئے جیسا کرتا‘ (یعنی تم مارنے کی اداکاری کرو، میں رونے کی اداکاری کرتا ہوں) یہی ہو رہا تھا اور معصوم و بے چارے عوام یہ سمجھتے رہے کہ ادھو میں ’مراٹھی مانوس‘ بیدار ہو رہا ہے۔

حالانکہ زیادہ سخت تیور شیوسینا کی جانب سے ہی اختیار کیا گیا، لیکن بی جے پی نے بھی مہاراشٹر میں زمینی سطح پر شیوسینا کو کمزور کرنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بہرحال دونوں پارٹیوں کے درمیان بڑھتی خلیج کو پاٹنے کے لئے جس فارمولے کا اعلان ہوا ہے اُسے دونوں ہی پارٹیاں اپنی کامیابی بتارہی ہیں، لیکن مہارشٹر میں بڑھتے بی جے پی کے قدم اور سیٹوں کی تقسیم کاری واعداد وشمار یہ ضرور بتاتے ہیں کہ سینا نے مہاراشٹر میں بی جے پی کے بڑے بھائی ہونے کا درجہ گنوا دیا ہے۔ اس بار بھی مہاراشٹر کی 48 پارلیمانی سیٹوں میں سے بی جے پی کے حصے میں کُل 25 سیٹں آئی ہیں جبکہ شیو سینا کو 23 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ جہاں تک ان کی حلیف پارٹیوں کا سوال ہے دونوں ہی پارٹیاں اپنے اپنے کوٹے سے عنایت کریں گی۔ دونوں نے اس اتحاد کو وقت کی اہم ضرورت گردانا ہے۔ ادھو اور امیت شاہ نے یک زباں ہوکر کہا کہ جب دیگر پارٹیاں ہمارے خلاف متحد ہوسکتی ہیں تو ہم آپس میں اتحاد کیوں نہیں کرسکتے۔ ہم دونوں کے درمیان اختلافات ضرور رہے ہیں، لیکن نظریات دونوں کے ہمیشہ یکساں رہے۔ یہی نظریہ ہم دونوں کا رام مندر کی تعمیر کو لے کر ہے۔

یہ اتحاد پیش آئند پارلیمانی انتخاب میں کیا گُل کھلائے گا، اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہوگا۔ البتہ اس دوران ادھو ٹھاکرے نے جس طرح پے درپے یو ٹرن لیے ہیں اس سے ان کی قائدانہ صلاحیت پر سوالیہ نشان ضرور لگ گیا ہے۔ شیو سینا جوکہ اپنی ’روک بھائی ٹھوک‘ نیتی کیلئے شہرت رکھتی ہے ’’پہلے مندر پھر سرکار‘‘ کا نعرہ دیتے دیتے ادھو جس جوش میں ایودھیا ہو آئے اور سادھو سنتوں کے سامنے اپنے اس نعرے کو ایک تحریک دینے کا وعدہ کیا، تو کیا اب وہ اس نعرے کے ساتھ کبھی ایودھیا کا رخ کر پائیں گے۔ ادھو لاکھ کہیں کہ یہ اتحاد پبلک ڈیمانڈ پر ہوا ہے اور پندرہ سال بعد حاصل ہونے والے اقتدار کو ہاتھ سے جاتا ہوا دیکھ کر بی جے پی سے اتحاد بنائے رکھنا ضروری ہوگیا تھا، لیکن سچ تو یہ ہے کہ مجبوریاں اور بھی ہیں، اور بھی کئی خوف تھے جو انہیں ستارہے تھے۔ وکھے پاٹل کی اگر مانیں تو ادھو کو ای ڈی (انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ) کا خوف بھی لاحق تھا۔ انہیں اس بات کا اندیشہ ہو چلا تھا کہ اگر وہ یونہی شدت پر قائم رہے تو بعید از امکان نہیں کہ جس طرح بی جے پی سرکار مایا، ممتا اور لالو کو ای ڈی کا شکار بنا چکی ہے اسی طرح ان کے خلاف بھی ای ڈی کی ریڈ پڑ سکتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف کوکن میں ادھوٹھاکرے کی بڑی تعداد میں بے نامی جائیدادیں ہیں۔ جس پر آج تک کسی نے کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ اسی طرح ٹھاکرے اینڈ فیملی کی جائیدادوں کو لے کر عدالت میں بھی جے دیو اور ادھو ٹھاکرے ایک دوسرے کے خلاف کیس لڑرہے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ اس وقت جوڈیشری بھی ’زیر دباؤ‘ ہے تو اس لحاظ سے ادھو کو یہ خوف بھی یقینی طور پر ستارہا ہوگا کہ کہیں معزز جج جے دیو ٹھاکرے کے حق میں فیصلہ نہ دے بیٹھیں۔ ممبئی مہانگر پالیکا پر ایک عرصہ سے شیوسینا کا قبضہ ہے۔ 30 ہزار کروڑ سالانہ بجٹ والی مہانگر پالیکا میں بدعنوانیاں عروج پر ہیں، اگر بی جے پی حکومت چاہے تو اس پر ایک آڈٹ ٹیم بٹھاکر ان کی پول بہ آسانی کھول سکتی ہے۔ یہ وہ چند فیکٹر ہیں جس نے ادھو کے جارحانہ تیور میں نرمی پیدا کی ہوگی۔

علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی محسوس کیا ہوگا کہ ان کے پارلیمانی ممبران جو دہلی میں بیٹھتے ہیں ان کو بھی بی جے پی نے کسی نہ کسی حد تک رام کرلیا ہے۔ یہ ممبران پارلیمنٹ اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ اتحاد کرکے لڑنے میں ہی عافیت ہے ورنہ ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔ کیونکہ نوٹ بندی کے سبب 2014 کی طرح اب دولت کی ریل پیل بھی نہیں رہی کہ جس کے سہارے آج کے دور میں انتخابات لڑے اور جیتے جاتے ہیں۔ اگر نوٹ بندی سے کسی پارٹی کو نقصان نہیں ہوا ہے تو وہ بھاجپا ہی ہے۔ ان سب کے علاوہ ادھو پر یہ حقیقت تو واضح ہوچکی ہے کہ شیوسینا سپریمو کی اب وہ اہمیت نہیں جو بال ٹھاکرے کے زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ اُس دور میں لوگ عقیدت ومحبت میں بھی پارٹی سے جڑا کرتے تھے، جبکہ آج کے دور میں حالات یکثر مختلف ہیں۔ جو لوگ بھی جڑے ہیں تو صرف اقتدار کی خاطر۔ اب وہ دور نہیں رہا کہ جس سمت انگلی اٹھادی جاتی اسی جانب لوگ چل پڑتے۔

اور سب سے بڑی بات: اگر شیو سینا بی جے پی سے ہاتھ نہ ملاتی، تو عین ممکن تھا کہ بی جے پی ایک دوسرے فائر برانڈ ٹھاکرے یعنی راج کی طرف راغب ہوتی۔ راج ٹھاکرے، جو اب تک پارٹی چلانے کیلئے فنڈ کی کمی سے لیکر افراد کی کمی تک کی وجہ سے حکومت کا مزہ نہیں چکھ سکے ہیں، طاقت کا حصہ بن سکتے تھے۔ عین ممکن تھا کہ بی جے پی جیسے تیز گام گھوڑے کی صرف دُم پکڑ کر بھی منسے شیو سینا سے آگے نکل جاتی اور ایسا ہونا ادھو کی سیاسی موت کے مترادف ہوتا۔