جہانِ نو ہورہا ہے پیدا۰۰۰۰ ڈاکٹر سلیم خان

جہانِ نو ہورہا ہے پیدا۰۰۰۰
ڈاکٹر سلیم خان
مولانا آزاد یونیورسٹی (حیدرآباد) کے وائس چانسلر پروفیسر اسلم پرویز اور سینٹر فار اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائیٹیز (دہلی ) کے پروفیسر ہلال احمد کی ممبئی آمد اہلیان شہر کے لیے ایک عظیم سعادت تھی۔ پروفیسر ہلال احمدنے’ملک میں مسلمانوں کی پسماندگی اور نمائندگی کا مسئلہ ‘ کے موضوع پر کمیونٹی ٹاکنگ پلیٹ فارم کے پروگرام میں خطاب کیا۔ آپ چونکہ ماہر عمرانیات ہیں اور لندن سے تعلیم کی تکمیل کے بعد ایک تحقیقی ادارے سے منسلک ہوگئے ہیں اس لیے انداز بیاں روایتی تقاریر سے مختلف تھا۔ پسماندگی اور نمائندگی کی اصطلاحات کے معنیٰ واضح کرنے کے بعد پروفیسر صاحب نے اس موضوع کے حوالے سے بہت ساری غلط فہمیوں کا ازالہ فرمایا۔ آپ نے اپنے اعدادو شمار کی روشنی میں ثابت کیا کہ جس وقت ایوان پارلیمان میں مسلمان ارکان کی تعداد سب سے زیادہ تھی ملک کے اندر فسادات بھی سب سے زیادہ رونما ہوئے۔ آپ نے مظفر نگر فساد کی مثال دے کر بتایا کہ مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان ارکان پارلیمان و اسمبلی، ملت کے بجائے اپنی سیاسی جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں ۔
پروفیسر ہلال احمد نے اپنی پر مغز گفتگو میں یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ پابندِ صوم و صلٰوۃ ہیں ۔ ان کی بیوی بھی مسلمان ہے ۔ وہ شراب بھی نہیں پیتے اس کے باوجود وضع قطع کے سبب ان جیسے لوگوں کو مسلمانوں کا نمائندہ نہیں سمجھا جاتا ۔ یعنی ایک خاص قسم کے لباس اور باریش ہونےکو نمائندگی کی شرائط میں شامل کردیا گیا ہے۔ اس تقریر کے بعد اورنگ آباد کی ایک مسجد میں امام صاحب کو سلام پھیرنے کے بعد دیکھا تو بھی داڑھی سے محروم تھے ۔ چونک کر غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ اس نوجوان کے ابھی داڑھی آئی نہیں ہے اور وہ امامت کے فرائض انجام دے رہاہے ۔ استفسار پر پتہ چلا کہ وہ حافظ قرآن ہیں اور بی ایڈ کررہے ہیں۔ مجھے اپنا زمانہ یاد آیا کہ اس عمر میں ہم جیسے لوگوں کو صف میں پیچھے بھیج دیا جاتا تھا جبکہ آج نوجوان امامت کررہا ہے ۔ یعنی علم و فضل نے عمر اور وضع و قطع کو مات دے دی ہے ۔ ایک نوجوان کی امامت اور پروفیسر ہلال احمد کا نماز مثبت تبدیلیوں کی علامت ہے۔ اس لیے کہ ہمارےکالج کے زمانے میں اساتذہ کم ہی نماز کی پابندی کرتےتھے اور اس کے اظہارمیں عار محسوس کرتے تھے ۔
مانو کے وائس چانسلر ڈاکٹر اسلم پرویز کا پروگرام ممبئی یونیورسٹی کے کسماگرج آڈیٹوریم میں تھا ۔ علی سردار جعفری جیسے نامور ترقی پسند شاعر و صحافی سے منسوب سالانہ خطبہ میں کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا آکر خطبہ دینا ایک عام سی بات ہے لیکن اس تناظر میں لکچر کا عنوان ’قرآن ، سائنس اور اردو‘ضرورچونکانے والا تھا۔ ہمارے زمانے میں سرکاری دانش گاہ کے اندر اس موضوع کا تصور محال تھا کجا کہ فسطائی دور حکومت میں اس کا اہتمام اور پورے آڈیٹوریم کا سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہونا۔ ڈاکٹر صاحب نے اول تو اردو میں سائنسی کتابیں اور جریدوں کی تاریخ بیان فرمائی ۔ اس کے بعد اردو میں اپنے ۳۵ سالہ جریدے سائنس کی چشم کشا تفصیل اور موضوعات کا تعارف کرایا تو سامعین غریقِ ِحیرت ہوگئے۔ ان کے خطاب کا اہم ترین باب قرآن اور سائنس تھا ۔ آپ نےمعتبر لغات کی مدد سے سائنس اور علم کی جو تعریف پیش کی وہ روایتی سوچ سے بالکل مختلف اور ایک دوسرے پوری طرح ہم آہنگ تھی ۔ ڈاکٹر صاحب نےدین و دنیا کی تفریق کی مانند سائنس اور علم کا تفریق کا طلسم پاش پاش کردیا۔ انہوں نے الہامی آیات کی حوالے سے بتایا کہ کس طرح قرآن مجید انسان کے اندر سائنسی و معروضی فکر ومزاج پروان چڑھاتا ہے۔ اپنے دلائل اور خوش بیانی سے ڈاکٹر اسلم پرویز نےسامعین کا دل جیت لیا۔ اتفاق سے وہ بھی روایتی عالم دین کی نہیں بلکہ پروفیسر ہلال احمد کے وضع قطع میں تھے ۔ میری نسل کے لوگ ان تقریبات میں شرکت کے بعد سوچتے ہیں ’ زمانہ بدل چکا ہے‘۔ ان مثبت تبدیلیوں میں پوشیدہ اشاروں کا غمازرحمٰن خاور کا شعر میں دیکھیں ؎
جو آج میرا نہیں ہے وہ کل مرا ہوگا کہ ہر زمانہ عروج و زوال رکھتا ہے