عذابِ دانش حاضر سے باخبر ہوں میں،کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل ڈاکٹر سلیم خان

عذابِ دانش حاضر سے باخبر ہوں میں،کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
ڈاکٹر سلیم خان
کسی نے واٹس ایپ کیا ’’ مسلم امت کے رومانس میں سے ایک رومانس عربوں کے اسپین قبضے سے متعلق ہے۔ اس رومانس میں مبتلا اثر اکثر احباب کو گمان ہے کہ اسپین میں علم ، حرفت و فنون لطیفہ کی ترقی عربوں کے مرہون منت تھی۔ اگر یہ بات تسلیم کربھی لیں تو سندھ پر بھی عربوں نے کم و بیش اسی دور میں قبضہ کرکے اسے امیہ کے تحت کیا تھا ۔ تو میرے بھائی سندھ میں اسپین جیسی ترقی کیوں نہ ہوسکی‘‘ ۔ اس دعویٰ کے حقیقت یا سراب ہونے کا راز تاریخی دستاویزات ہے لیکن تحقیق کی مشقت سے بچنے کے لیے منطق کا سہارا لیا گیا۔ ایک کسان نے اپنے دو بیٹوں کو گیہوں کا تخم دے کر روانہ کردیا ۔ ایک فصل کے ساتھ اوردوسرا بے نیل و مرام لوٹا ۔ کیا اس ناکامی یا کامیابی کے لیے صرف اور صرف کسان کو ذمہ دار ٹھہرا یا جاسکتا ہے؟ حالانکہ اس میں بیٹوں کی صلاحیت و صالحیت کے علاوہ ان کو ملنے والی زمین کی ساخت اور آب و ہوا کا دخل رہا ہوگا جو بیج کی نشوونما کے لیے مفید یا مضر تھی۔ ان باپ بیٹوں کا ایک امت سے متعلق ہونا ان کی صفات اور حالات کو یکساں نہیں بنادیتا ۔ ششی تھرور نے اپنی کتاب برطانوی دورِ تاریک میں اعدادو شمار کی بنیاد پر مغلوں کے زمانے میں ہندوستان کی بےپایاں معاشی و صنعتی ترقی کا اعتراف کھلے دل سے کیا ہے۔ مگرافسوس کہ بقول اقبال ؎
یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو مجھ کو گلا تجھ سے ہے یورپ سے نہیں
علامہ اقبالؒ نے اپنے شہرہ آفاق خطبات The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.142)) میں اس دعویٰ کی تائید کہ یورپی فلسفہ اسلامی نظریات کے زیر اثر آیا تھا بریفالٹ کی کتاب’’’تشکیل انسانیت‘‘ سے متعدد اقتباسات بیان کیے ہیں۔ حکیم الامت کے بیان کا خلاصہ یہ ہےکہ سقراط اور اس کے شاگرد افلاطون نے عالمِ محسوسات اور خارجی دنیا کو لائقِ مطالعہ خیال نہیں کیا تھا۔اس کے برعکس اسلام نے خارجی دنیا اور محسوسات کے عالم کو بھی باطن کی طرح اہم ،مفید اور لازم قرار دیا۔ جس کے سبب قدیم مسلمانوں نے تجرباتی علوم کی بنیاد رکھی جوآگے چل کر یورپ میں مقبول ہوئی ۔ اسی طرح قرآن حکیم نے کائنات میں حرکت اور ارتقا کا نظریہ پیش کیا جسے بعد میں یورپ میں اختیارکیاگیا۔ یونانی مفکرین جمود کائنات کے قائل تھے۔ وہ تصورکائنات قرآنی تعلیمات اور جدید سائنس کے خلا ف تھا۔اس تاریخی حقیقت سے کیوں کر انکار کیا جاسکتا ہے کہ البیرونی نے یونانی فلسفے سے منحرف ہوکرریاضیاتی انداز میں کائنات کے جمود پرستانہ نظریے کو ناکافی قرار دےدیا تھا۔
قرآن حکیم اشیائے کائنات مثلاًنباتات اور حیوانات طرف بھی توجہ مبذول کراتا ہے۔ اسی لیے جاحظ نے سب سے پہلے پرندوں کے ترکِ مکانی کو بیان کیا اور آگے چل کر یورپی سائنس نے اس کے زیر اثر قدرتی علوم کو فروغ دیا۔ جدید یورپی فلسفہ میں تجربیت کی جو اہمیت ہےاس کو ابن حزم اور ابن تیمیہ کی مشاہدہ وتجربہ پر زور دینے والی تصانیف سے تقویت ملی ۔ انگریز فلسفی راجر بیکن کو جدید فلسفہ اور سائنسی طریق کار کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ایک مسلّمہ تاریخی حقیقت ہے کہ بیکن ہسپانوی مسلمان مفکرین کی درس گاہوں سے فیضیاب ہوچکا تھا۔قرآنی تعلیمات کے زیر اثر ابن خلدون نے اپنا نظریہ تاریخ پیش کیا جس کی رُو سے اس نے تاریخ کو زمان میں ایک مسلسل تخلیقی حرکت قرار دے کر جبریت کی تردید کی۔اس لحاظ سےابن خلدون برگساں کا پیش رو قرار پاتے ہیں۔ امام غزالی ؒکے اُصول تشکیک کاپرتو ڈیکارٹ کے طریق استدلال میں نظر آتا ہے۔اس لیے علامہ فرماتے ہیں ؎
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانشِ فرنگ سرمہ ہے میری آنکھوں کا خاک مدینہ و نجف