یک جان دو قالب دو بھائی
ــــــــ
از ـ مولانا محمود احمد خاں دریابادی
متناسب قدوقامت، صبیح چہرہ، عینک کے پیچھے جانکھتی ہوئی روشن آنکھیں، سادہ سفید کرتا، چوڑی موری کا پاجامہ، نہ عالمانہ طمطراق، نہ زاہدانانہ عشوہ طرازیاں اور نہ ہی خطیبانہ ادائیں ـ
یہ تھے ” سادگی وپُرکاری بے خودی وہشیاری ” کا مرقع عالی نسب، عالی خاندان، عالم اسلامی کی عظیم درسگاہ ندوۃ العلماء کے بزرگ استاذ، البعث الاسلامی اور الرائد کے مدیر مشہور عربی اور اردو کے انشاپرداز حضرت مولانا سیدواضح رشید ندوی !
ان کی دیگر خصوصیات تو ندوہ کے فضلاء اور ان کے شاگردان رشید جن کی تعداد بلا مبالغہ پوری دنیا میں ہزاروں ہوگی بیان کریں گے، مجھے تو ان دونوں بھائیوں ( حضرات مولانا رابع صاحب اور حضرت مولانا واضح صاحب) کے آپسی تعلق، اور ان کے بیچ غیر معمولی اخوت ومحبت کو میں نے جو محسوس کیا ہے اس پر کچھ کہنا ہے ـ
ممبئی میں جب بھی حضرت مولانا رابع صاحب کا سفر ہوا ہم نے ہمیشہ مولانا واضح صاحب کو ان کے ہمراہ دیکھا، ممبئی آمد کے بعد یہاں جتنے پروگرام ہوتے ان میں بھی دونوں بھائی ساتھ ہوتے، ممبئی کی قیام گاہ پر جب بھی میری ملاقات کے لئے حاضری ہوتی دونوں بزرگوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا ـ ندوے جانا ہوتا تو وہاں بھی مہان خانے میں دونوں حضرات کی زیارت ہوتی، دونوں کی چارپائیاں آس پاس رہتیں، ایک مرتبہ مہمان خانے پہونچا تو دیکھا کہ دونوں اپنے اپنے بستر پر کاغذ قلم سنبھالے لکھنے میں مصروف ہیں ـ برادر کُشی کے اس دور میں دو بھائیوں کے درمیان ایسی محبت اور ہم مزاجی بہت مشکل سے ملے گی ـ
آج مولانا واضح صاحب کے انتقال پر ایک زمانہ سوگوار ہے، لیکن ذارا سوچئے سائے کی طرح ساتھ رہنے والے بھائی کی جدائی پر مولانا رابع صاحب پر کیا گذر رہی ہوگی ـ ” یک جان دوقالب ” نظر آنے والی شخصیات کا ایک حصہ بچھڑ گیا …….
ایسے میں ہم لوگوں کو جہاں مولانا واضح صاحب کےبلندی درجات، ان کے پسماندگان کے لئے صبر جمیل اور ملت کے لئے نعم البدل کی دعائیں کرنی چاہئے وھیں حضرت مولانا رابع صاحب کے لئے اس اندوہناک سانحے سے گذرنے کا حوصلہ اور صحت وعافیت کے ساتھ درازیِ عمر کی دعائیں بھی کرنی چاہیئے ـ ابھی ملت کو اُن کی بہت ضرورت ہے ـ
محمود دریاباد