مولانا واضح رشید حسنی ندویؒ کی رحلت , ادارہ جامعہ رحمت گھگرولی سہارنپور میں آل انڈیا ملی کونسل کی تعزیتی میٹنگ میں مولانا مرحوم کیلئے ایصال ثواب اور مغفرت کی دعاء

سہارنپور( اسٹاف رپورٹر)
آج مورخہ ۹؍ جمادی الاول ۱۴۴۰ھ بروز چہارشنبہ کا دن طلوع ہونے سے قبل مولانا واضح رشید حسنی ندویؒ کی رحلت کا تازہ صدمہ دے گیا، جیسے ہی یہ رنج و الم کی دردناک خبر سنی کہ عالم اسلام کے مشہور و مقبول عالم دین قدآور صحافی اور دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنؤ کے معتمد تعلیم و عربی مجلہ ’’الرائد‘‘ کے رئیس التحریر البعث الاسلامی کے شریک ادارت و عالم اسلام کی مایۂ ناز شخصیت مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندویؒ کے لائق و فائق بھانجے اورمولانا رابع حسنی ندوی صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے برادر اصغر و جنرل سکریٹری رابطۂ ادب اسلامی ہم سبکو داغ مفارقت دیکر داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے انا للہ و انا الیہ راجعون انکے انتقال سے علمی، ادبی، صحافی، اور ملی حلقوم میں غم کی لہر دوڑ گئی۔اسی غم میں شریک سہارنپور کے دینی ادارہ جامعہ رحمت گھگرولی کے مہتمم مولانا ڈاکٹر عبدالمالک مغیثی نے جامعہ ہذا میں ایک تعزیتی میٹنگ میں مولانا مرحوم کیلئے ایصال ثواب اور مغفرت کی دعاء کی ، اس موقع پر مولانا مغیثی نے کہا کہ طلوع آفتاب دنیا کے ساتھ مولانا سید واضح رشید حسنی ندوی کی شکل میں علم وکمالات کا وہ شہاب ثاقب بھی افق آخرت میں روپوش ہوگیا جسکی ضو فشانی سے علم و قلم اور تدریس کی بستیاں روشن تھیں، وہ خاموش طبیعت اور یکسو مزاج کے انسان تھے ، وہ عہدوں وغیرہ سے قطعاً بے پرواہ تھے اور کبھی عہدوں کی خواہش نہ رکھتے تھے، وہ جہاں جاتے اخلاق و کردار کی خوشبو بکھیرتے تھے، یہ تلخ سچائی ہے کہ سب کچھ بننا آسان ہوتا ہے لیکن بے ضرر انسان بننا کار دشوار ہے، وہ ملکی اور ملی حالات پر انتہائی گہری نظر رکھتے تھے اور انکے ازالہ کیلئے ہر ممکن کوشاں رہتے اور مفید مشوروں سے نواز تے تھے، وہ ہمیشہ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے ساتھ رہتے اور انکی رفاقت کا کماحقہٗ حق اداکرتے تھے، مولانا ڈاکٹر عبدلمالک مغیثی رکن مرکزی مجلس عاملہ آل انڈیا ملی کونسل نے کہا کہ مولانا کی پوری زندگی علم دین کی خدمات سے بھری پڑی ہے، وہ صرف تعلیم و تعلّم کے انسان تھے انکے علمی کارنامے قابل تحسین ہیں وہ بارہا جامعہ ہذا میں مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہٗ کے ہمراہ تشریف لائے اور سرپرستی کرتے رہے، انہوں نے کہا کہ مولانا کی وفات سے امت مسلمہ ایک قدآوار علمی، ادبی شخصیت اور مختلف محاذوں پر مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والے مخلص قائد سے محروم ہوگئی، مولانا کی ذات کو علم و فضل کے ساتھ ساتھ قلم پر بھی خاص دسترس حاصل تھا یقیناًملت ایک عظیم صحافی سے محروم ہوگئی آپ عوام و خواص میں محبوبیت اور عزت و عظمت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے، انہوں نے کہا کہ سرزمین ہند علم و عمل اور عالی اخلاق کی حامل شخصیات سے دن بدن خالی ہوتی جارہی ہے جو ہمارے لئے افسوس اور دلی تکلیف کا باعث ہے اللہ تعالی انہیں آخرت کی تمام عزت و عظمت سے سرفراز فرمائے اور اعلی علیّین میں جگہ عطافرمائے ۔آمین


مولانا محمد عبداللہ مغیثی قومی صدرآل انڈیا ملی کونسل نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ مولانا اپنی ذات میں خود ایک انجمن تھے انہوں نے کہا کہ وہ سرزمین لکھنؤ اور ندوۃ العلماء کیلئے ایک عظیم عہد ساز شخصیت تھے جنکی پوری زندگی بھلائی اور خیر خواہی میں گزری نرم لہجہ،بلند اخلاق آپکی زندگی کا خاصہ تھا آپکے چلے جانے سے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا ،باری تعالی انکو غریق رحمت کرے اور ہمیں انکا نعم البدل عطا فرمائے ۔ آمین