نفرت کا شعلوں پہ الفت کی شبنم

ڈاکٹر سلیم خان
اللہ تبارک و تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک ذکر قرآن کریم میں اس طرح کیا گیا ہے کہ ’’ تم اپنےاوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی ‘‘۔ آیت کا یہ حصہ گواہی دے رہا ہے کہ لوگوں کےدرمیان دشمنی اس لیے ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں ۔ اس نفرت کو جب رب کائنات اپنے فضل خاص سے الفت میں بدل دیتا ہے تو دشمنی بھائی چارہ میں بدل جاتی ہے۔ جیسا کہ آگے فرمایا ’’ اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے‘‘۔ اس عظیم نعمت کا اضافی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ’’اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پرتھے پھر اس نے تمہیں بچا لیا‘‘۔ یہ یقیناً آتش ِ دوزخ کا ذکر ہے لیکن نفرت و عناد کے شعلے بھی دنیا کو جہنم زار بنادیتے ہیں۔ جذبۂ محبت و بھائی چارہ ہی اسے جنت نشاں بناسکتا ہے۔ عالمِ فانی کو جہنم بنانے والوں کا ٹھکانہ دوزخ اور اسے بہشت نما کرنے کا انعام جنت ہونا مطابق ِفطرت ہے۔ ارشادِ ربانی ہے’’یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ‘‘۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابن آدم اپنے آپ کو اس نعمت خداوندی کا مستحق بنانے کے لیے کیا کرے ؟ اس استفسار کے جواب میں پہلے تو یہ بتایا گیا کہ فرداً فرداً انسان کو کیا کرنا چاہیے اور پھر اجتماعی طور پر ایک امت کی حیثیت سے ذمہ دار ی کیاہے؟ انفرادی سطح پر کرنے کا کام اس سے ماقبل آیت میں اس طرح بیان کیا گیا کہ ’’اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیساکہ اس سےتقویٰ کا حق ہے‘‘۔ تقویٰ یعنی اللہ کی محبت اور اس کی ناراضگی کا ڈر اپنے اندر پیدا کیے بغیر انسان خود کو مذکورہ نعمت کا حقدار نہیں بناسکتا ۔اس لیے کہ جو اپنے پاک پروردگارسے محبت نہیں کرتا وہ دوسروں سے کیا محبت کرے گا ؟ نیز خالق سے محبت کرنے والا اس کی مخلوق سے نفرت کیسے کرسکتا ہے؟ یہ صفت اس نعمتِ خداوندی کا پیش خیمہ ہے جو نفرت کو الفت میں بدل دیتی ہے اور دشمنی بھائی چارہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔خیال رہے یہ حالات کی خرابی کے سبب پیدا ہو نے والی کوئی عارضی ضرورت نہیں ہے آگے فرمانِ خداوندی ہے ’’ اور تمہاری موت صرف اسی حال پر آئے کہ تم مسلمان ہو‘‘۔ یعنی آخری سانس تک فرمانبرداروں میں شامل ر ہے۔
تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے والوں سےمزید مطالبہ یہ ہے کہ ’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو‘‘، اللہ کی رسی یعنی قرآن حکیم کو مضبوطی تھام لینے کا مطلب یکسوئی کے ساتھ دین اسلام پر عمل پیرا ہوجانا ہے۔ گویانفرت کا خاتمہ اور الفت کے فروغ کی خاطرعملی جدوجہد ناگزیر ہے۔ اللہ کی رسی کو مل جل کر تھام لینے کے نتیجے میں ازخود ایک ایسی اجتماعیت وجود میں آجاتی ہےجس کی بنیاد کسی ردعمل یا مخالفت پر نہیں بلکہ اپنے خالق و مالک کی اطاعت و فرمانبرداری پرہے ۔ جب امت بن گئی تو اس کا مقصد وجود اس طرح بیان کیاگیا ’’ اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں‘‘۔ یعنی ملت اسلامیہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری پر مامور ہے۔ اس کی ادائیگی کے بغیر وہ اپنے فرضِ منصبی سے عہدہ برآنہیں ہوسکتی ۔ اس دھرتی پر نفرت و عناد کا خاتمہ کرکے محبت و الفت کا بول بالا کرنے کانسخۂ کیمیا بھی یہی ہے۔ دنیا و آخرت میں فلاح کی ضمانت و بشارت بھی اس میں مضمرہے ارشاد خداوندی دیکھیں ’’اور وہی لوگ بامراد ہیں‘‘۔ اس تناظر میں ہر ایک کو اپنا جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ ہم نامراد ہیں کہ بامراد ہیں ۔ شہر ممبئی میں جماعت اسلامی ہند کے زیر اہتمام جاری ’’نفرت کاخاتمہ ، انسانیت کا فروغ‘ مہم اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی ایک سعیٔ جمیل ہے۔