*اور ’کافر‘ یہ سمجھتا ہےکہ مسلماں ہوں میں*

’’خوداحتسابی‘‘
*سید حسین شمسی*

روزنامہ راشٹریہ سہارا
اشاعت: جمعہ، 16نومبر 2018

کانگریس رہنما راہل گاندھی اپنا سیکولرازم و مذہبی عقیدہ واضح کرنے اور باور کرانے میں جس الجھن کا شکار ہیں اُسے دیکھ کر فلم ’’پی کے‘‘ میں عامر خان کا کردار یاد آجاتا ہے کہ اپنا ’ریموٹ‘ پانے کے لئے وہ کبھی مندر وگرجا گھر تو کبھی مسجد و گرودوارہ کے چکر کاٹتا ہے، مختلف تیرتھ یاتراؤں کے علاوہ کبھی وہ ہنومان بھکت بنتا ہے تو کبھی شیوبھکت۔ بڑے ہی دلچسپ مناظر فلمائے گئے ہیں، جسے دیکھ کر ناظرین نے اگر قہقہہ لگایا تو انگشت بدنداں بھی ہوئے۔ ملک میں مذبی سیاست کے بڑھتے رجحانات اور فرقہ پرستی سے مکدّر ہوتی زہر آلود فضا نے راہل گاندھی کو کچھ ایسا ہی کردار ادا کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ موصوف کبھی جذبات میں آکر کانگریس کو مسلمانوں کی پارٹی کہہ بیٹھتے ہیں تو کبھی مختلف تیرتھ استھلوں پر حاضری اور منادر میں شیش جھکاتے نظر آتے ہیں۔

یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ ملک کا سخت ہندوتو طبقہ ان سے ہندو ہونے کا ثبوت مانگ رہا ہے۔ دراصل بی جے پی نہرو گاندھی فیملی اور پوری کانگریس کو ہندو مذہب سے دور اور بے نیاز ثابت کرنا چاہتی ہے۔ ان کی پوری اسٹریٹجی سونیا اور راہل گاندھی کو ہندو مخالف دکھانے کے اردگرد گھومتی ہے۔ مدھیہ پردیش، راجستھان چھتیس گڑھ میں اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں اور وہاں کی اکثریت ہندو مذہب و شیو بھکتوں کی ہے، بی جےپی کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ کہیں عوام میں راہل اور کانگریس کے لئے نرم گوشہ نہ پیدا ہو جائے۔ بی جےپی کے سینئر لیڈران ابھی بُھولے نہیں ہیں کہ سال 2001 میں سونیا گاندھی نے الہ آباد کمبھ کے دوران گنگا ندی میں ڈبکی لگا کر سنگھ پریوار پر زک لگائی تھی اور 2004 کے لوک سبھا الیکشن میں وہ اٹل بہاری واجپئی جیسے قدآور لیڈرکو پچھاڑنےمیں کامیاب ہو گئی تھیں۔ بی جے پی کا اسی غیر ہندو ہونے کے کمپین نے راہل کو کیلاش پربت یاترا اور مختلف تیرتھ یاترائیں کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ ادھر بی جے پی راہل کی بڑھتی ہندو پرستی سے کسی قدر بوکھلا گئی ہے اور اب ان کی کیلاش یاترا کی بھی مخالفت کر رہی ہے۔ راہل گاندھی کی جانب سے کیلاش یاترا سے متعلق سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی تصاویر وغیرہ میں بال کی کھال نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سے اسکی پریشانی صاف جھلک رہی ہے۔

راہل گاندھی جوکہ مزاجاً سیکولر ہیں اور اب تک سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کرتے آئے ہیں۔ اسی نظریہ کے تحت گزشتہ دنوں جب ایک مسلم وفد سے ملاقات کے دوران انہوں نے ’دلجوئی کے لئے سہی‘ یہ کہدیا کہ ’’کانگریس مسلمانوں کی (بھی) پارٹی ہے‘‘ تو مخالفین کو اور بھی موقع مل گیا۔ نتیجتاً سنگھیوں نے نہرو خاندان کا نیا شجرہ اور حسب نسب ترتیب دیتے ہوئے یہ عام کیا کہ نہرو کے آبا واجداد افغانستان سے آئے تھے، سو ان کی تحقیق کے مطابق یہ پریوار ایک مسلم خاندان ہے۔ اس کوشش میں اندراگاندھی کے شوہر فیروزگاندھی، جو مذھباً پارسی تھے، ان کو بھی مسلمان قرار دے دیا۔ اس واقعہ کے بعد راہل گاندھی اس قدر محتاط ہوگئے کہ اب وہ اپنی تقاریر وبیانات میں لفظ مسلمان تک کا استعمال نہیں کرتے۔ اگر مسلمانوں کی کوئی بات کرتے بھی ہیں تو ’’الپ سنکھیک‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ ادھر خود کانگریس کے بعض لیڈران نے بھی ان کو اپنے رہن سہن اور طرز گفتگو میں خالص ہندوانہ لہجہ اختیار کرنے کی صلاح دے ڈالی، جس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے موصوف پہلے کی بہ نسبت اپنے ماتھے پر قشقہ کچھ زیادہ ہی لمبا کھنیچنے لگے ہیں۔ اب تو باضابطہ جنیودھاری ہوگئے ہیں اور کانگریسی لیڈران وکارکنان اپنے علاقوں میں آویزاں کی جانے والی ہورڈنگز میں راہل گاندھی کے نام کے ساتھ ’شیوبھکت‘ یا ’وشنو بھکت‘ لکھنے لگے ہیں۔

راہل گاندھی کے اس نئے انداز سے ’’ہندتو کے ٹھیکیداروں‘‘ کے منھ پر تالا لگا کہ نہیں؟ ہندو سماج نے انہیں کس حدتک اپنایا؟ اس بارے میں تو زیادہ کچھ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا، البتہ یہ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ہندو پرستی کے تئیں بڑھتی ان کی رغبت و عقیدت سے مسلمانوں کی جانب سے ملنے والے ریسپانس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ مسلمانوں کو راہل گاندھی سے جو سیاسی الفت ومحبت پہلے تھی وہ آج بھی قائم ہے۔ دانشور طبقہ ہو کہ عام مسلمان، کسی نے بھی یہ شکوہ ظاہر نہیں کیا کہ ’’بدلے بدلے میرے سرکار نظرآتے ہیں‘‘۔ مسلمانوں کی جانب سے یہی ردعمل رہا کہ ’’تمہیں تمہارا مذہب مبارک ہو‘‘۔ حالانکہ کانگریس کے بعض سرکردہ لیڈران کے بارے میں مسلمان آج بھی یہ رائے قائم کرتے آئے ہیں کہ ’ان کی دھوتی کے نیچے آر ایس ایس کی خاکی چڈّی ہے‘ لیکن راہل کے بارے میں انہیں اس طرح کا شائبہ تک نہیں۔

ہندوستان میں فی الوقت جو بادِ سموم چل رہی ہے اور مسلمان جس صبرآزما دور سے گزر رہے ہیں، ایسے میں ان کا کسی کے ورغلانے میں نہ آنا اور صبر کا دامن تھامے رکھنا بہتر حکمت عملی کا ثبوت ہے۔ ہم یہ سمجھ کے چلیں کہ آج اگر اچھا وقت نہیں تو زیادہ دنوں تک برا بھی نہیں رہے گا، وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، تغیّر اس کی فطرت ہے، سو یہ برا وقت بھی گزر ہی جائے گا۔ کیونکہ وقت کا گزرنا زمانے کے چلنے کی علامت ہے۔

آج اگر ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ تختہ مشق صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ دلت اور پسماندہ طبقہ بھی نشانے پر ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں مظلوم طبقہ یکجا ہوکر اپنی دفاعی قوت کو بڑھانے کی فکر کریں۔ حالانکہ دونوں طبقوں میں کسی حد تک قربت بڑھی ہے لیکن اس قربت میں ’برادریت‘ مزید لانے کی ضرورت ہے۔ ہم اگر ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو سیاسی اعتبار اور سیاسی مجبوریوں کے تحت، بھائی چارہ کی کمی اب بھی دکھائی دے رہی ہے۔ ہمیں اپنے اندر یہ ظرف پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا اور ان کا پرانا تعلق ہے، سماجی طور پر پستی میں رہنے والا گھرانہ، زمینداروں واشراف کی پیڑھی در پیڑھی خدمت کرتے کرتے اپنی محنت ومشقت سے موجودہ نسل کو پڑھا لکھا کر اگر آج اس پایہ پر پہنچادیا کہ کوئی انسپکٹر اور کوئی کلکٹر بن گیا تو ہمیں اس کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا چاہئے۔ اطمینان قلب کے لئے یہ سوچ سکتے ہیں کہ اس کی یہ ترقی اور رتبہ آپ کی جانب سے عطاکردہ اس کی محنت کا ثمرہ ہے۔ لہٰذا پستی سے ابھرنے والی موجودہ نسل کے حاصل کردہ مقام کو قبول کرنے اور اس سے کام لینے میں کوئی عار یا قباحت محسوس نہیں کرنا چاہئے۔ آپ کے اس باہمی ربط ضبط، ہم آہنگی اور برادرانہ رویہ کو وہ سماج کی جانب سے دیا گیا ایک بڑے اعزاز سمجھے گا، جس کی وہ ہمیشہ قدر کرے گا۔ اس طرح آپ کی عزت وتکریم میں بھی کوئی فرق بھی نہیں آئے گا۔

آخر میں ائیے پھر راہل گاندھی کی الجھن اور عقیدتاً ہندو ثابت کرنے کی ان کی ہرممکن کوشش کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے کہ راہل گاندھی کے ہندو پرستی کی جانب بڑھتے رجحان پر مسلمانوں کو کسی بھی طرح کا اعتراض نہیں، ظاہری وباطنی طور پر وہ خواہ کتنے ہی پختہ عقیدہ کے ہندو ہوجائیں یہ ان کا مذہبی معاملہ ہے لیکن ایک بات ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ اس جمہوری ملک میں بحیثیت ایک فرد انہیں مذہبی ہونے کی تو اجازت ہے لیکن حکمراں یا حکومت کے مذہبی ہونے کی قطعی گنجائش نہیں۔ ورنہ این ڈی اے اور یو پی اے حکومت میں تمیز نہیں کیا جاسکے گا۔