ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے ،جو کام آئیں دوسروں کے

ڈاکٹر سلیم خان
ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوا، اور عرض کی، اے اللہ کے رسولﷺ ، اللہ کے ہاں محبوب ترین کون ہے؟ اور کون سے اعمال اللہ کو زیادہ پسند ہیں؟ اس سوال میں نہ صرف محبوب ترین شخص سے متعلق استفسار ہے بلکہ یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ کن اعمال نے اس فردِ خاص کو اللہ کا پسندیدہ بندہ بنادیا؟ ایسےسوالات محض معلومات میں اضافہ کی غرض سے نہیں پوچھے جاتےبلکہ اس جستجوکے پیچھے جذبۂ عمل کار فرما ہوتا ہے ۔ اللہ کا محبوب بن جانے کی خواہش میں بندۂ مومن برگذیدہ بندے کا عملی نمونہ دیکھنا چاہتا ہے؟ اللہ کے رسول ﷺ نے ان دونوں سوالات کا نہایت مختصر اور جامع جواب یہ دیا کہ : اللہ کے نزدیک محبوب ترین وہ ہے، جو لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہے۔ یہاں کسی فرد واحد کی تخصیص کرنے کے بجائے عمومی صفت بیان کی گئی تاکہ سائل یہ سوچ کر نہ بیٹھ جائے کہ میں اس عظیم شخصیت کا پرتو کیسے بن سکتا ہوں؟
آپﷺ نے اپنا مدعا واضح کرنے کی غرض سے فائدہ پہنچانے کی تین مثالیں بیان فرمادیں ۔ اللہ کا محبوب بندوں کی ’’ مشکل دور کرتاہے ، قرض ادا کردیتاہے، بھوک مٹاتاہے‘‘۔ مشکلات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ یہ نفسیاتی بھی ہوسکتی ہیں ، فکری و علمی بھی ۔ عملی و مادی مسائل کو حل کرنا بھی مشکل دور کرنا ہے۔ بھوک ایک انفرادی اور بنیادی ضرورت ہے لیکن قرض کی ادائیگی کوقرض خواہ کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے ۔ بے شمار سرمایہ دارہزاروں کروڈ روپیہ کا قرض غصب کرکے بھاگ جاتے ہیں لیکن باضمیر قرضدار اس بوجھ کے تلے گھٹتا اور مرتا رہتا ہے۔ اس مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ کسانوں کی خودکشی سے لگایا جاسکتا ہے۔ عزت و وقار کی زندگی کا انحصار پیٹ کے بھرنے تک محدود نہیں بلکہ حقوق العباد کی ادائیگی پر ہے۔
عوام کے مشکلات کو دور کرنے کی دو صورتیں ہیں ۔ اپنے تئیں کسی کے کام آجانا سہل تر ہے ۔ بصورت دیگر معذرت چاہ لینے کی گنجائش بھی ہوتی ہےلیکن اللہ کے پسندیدہ بندے اس پر اکتفاء نہیں کرتے۔ وہ سائل کے غم میں شریک ہوکریہ سوچتے ہیں کہ میں نہیں تو کون مدد کرسکتا ہے؟ محض زبانی رہنمائی پربس کرنے کے بجائے وہ نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ حدیث شریف کے اگلے حصے میں محسن انسانیت ﷺ نےاسی کیفیت کو بیان فرمایا ’’ اور کسی شخص کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ چلنا، مجھے مسجد نبوی میں ایک ماہ کے اعتکاف سے بھی زیادہ پسند ہے‘‘۔ یہاں کسی فریادی کی استعانت کے لیے کی جانے والی سعی ٔجمیل کو اعتکاف سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ معتکف کو اس احرام باندھنے والے سے مشابہ ہوتا ہے کہ جو اپنے آپ کو کلی طور پر خدا کے حضور ڈال دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اے خدا مجھے تیری قسم ہے کہ میں یہاں سے نہیں ہٹوں گایہاں تک کہ تو مجھ پر رحم فرما دے۔ایک روایت میں ہے ’’ جو شخص رضائے باری اللہ تعالیٰ کی خاطر ایک دن اعتکاف کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین ایسی خندقیں بنادے گاجن کے درمیان مشرق ومغرب کے مابین فاصلے سے بھی زیادہ فاصلہ ہوگا۔
اعتکاف کی فضیلت یوں بھی بیان ہوئی ہے کہ ’’اعتکاف کرنے والا گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اسے ان نیکیوں کا بدلہ جو اس نے اعتکاف سے پہلے بجا لائی تھیں اعتکاف کے دوران بھی ایسے ہی ملتا رہتا ہے‘‘۔ یعنی اعتکاف کے دوران بندہ جن نیکیوں سے محروم رہ جائے ان کے ثواب سے بھی بہرہ مند ہوجاتا ہے لیکن معتکف کا غرض مند کے لیے نکل پڑنا افضل تر ین عمل ہے۔اعتکاف کی حقیقت گوشہ نشینی ہے ایک بزرگ سے کسی نے اس کی وجہ دریافت کی تو بتایا کہ میرے پاس ایک خطرناک کتا ہے ۔ اس کے شر سے لوگوں کو بچانے کے لئے میں خلوت نشین ہوگیا ہوں۔دریافت کیا ’’وہ کتا کہاں ہے؟‘‘ تو فرمایا ’’میرا نفس‘‘ ہے۔ لیکن انسان کے اندر خدمت خلق کا جذبہ ایک ایسی بکری کی مانند ہے جو ضرورت مند کی بھوک اور پیاس دونوں مٹاتی ہے۔اسی لیے مشکل کشائی کی دوڑ دھوپ کو مسجد نبوی ؐ میں مہینے بھرکے اعتکاف سے افضل قراد دیا گیا۔