حافظ محمد سیف الاسلام مدنی
سیتا مڑھی ریاست بہار کا ایک تاریخی شہر ہے "جو پورے ملک میں اپنی ایک پہچان رکھتا ہے اور غیر معمولی شہرت کا حامل ہے ”
قدیم زمانہ سے یہاں ہندو مسلم آباد ہیں
"مگردھیرے دھیرے، سیتا مڑھی بھی ان شہروں میں شامل ہوتاجارہا ہے، جو اپنے اندر ہندو مسلم کی آبادی کو لےکر حساس اور نازک ہیں”یوں تو پورے ملک کے اندر مسلمانوں کو پریشان کیا جارہا ہے، مگر وہ شہر جہاں فساد ہوئے ہوں، اور مسلمانوں کا جانی مالی نقصان ہوا ہے !ان میں سیتا مڑھی بھی داخل ہوچکا ہے
خود سیتا مڑھی میں بھی فساد کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے بھی شر پسند عناصر اور اسلام معاندین کی جانب سے اس شہر کی فضاء کو مسموم بنانے کی کوشش کی گئی ہے، مگر حال میں جو واقعہ پیش آیا،اور جس طرح سے فرقہ پرستوں نے مسلمانوں کو جانی اور مالی طور پر نقصان پہنچایا "اور ایک عمر رسیدہ شخص کو بے دردی سے قتل کرکے ظلم و سفاکی کی انتہا کردی،وہ ظلم و بربریت کی انتہاء ہے ”
اس سارے معاملے میں غور کیاجائے "تو معلوم ہوگا
"کہ سیاسی لیڈران اور بعض صحافی حضرات اس بات کو اس طرح پیش کررہے ہیں، کہ گویا فساد ہوا ہی نہیں، جس طرح سے روز اول سے ہی اس معاملہ کو دبانے اور مجرموں کی پشت پناہی کے لئے کوششیں کی گئی وہ انسانیت کو شرمسار کردینے کے کئے کافی ہے!
ہندوستان میں سنہ 2014 کے بعد جتنے بھی فسادات ہوئے ہیں، اور جتنے جرائم ہوئے، حیرت ہے، کہ ان میں اصحاب اقتدار ملوث ہیں،
کشمیر سے لےکر اتر پردیش تک جو حالات آئے "اور جس طرح سے جرم کرنے والوں نے اعلانیہ طور پر، جرائم کئے، اور انکو بچانے کے لئے خود اصحاب اقتدار سامنے آئے، انکی رہائی کے لئے پروٹیسٹ کئے گئے، اور مجرموں کے دفاع میں، لیڈران، پولیس اہلکار، اور وکلاء کی جماعت سامنے آئی اسنے اس ملک کی جمہوریت کو متزلزل کردیا!
اس وقت کے مجرم بھی آزاد ہیں، اور آج کے مجرمین بھی کھلی فضاء میں سانس لے رہے ہیں ”
ان مجرموں کو انکے انجام تک کیوں نہیں پہونچایا جارہا ہے؟ "نتیش سرکار، اس واقعہ کو منظر عام پر لاکر، مجرموں کو سزا دلوانے کے بجائے "انکی پشت پناہی کررہی ہے!
اور اسی درمیان انکی پارٹی کے ایم ایل سی خالد انور نے جو بیان جاری کیا ہے "اس میں تو اس قسم کے اشارے دئیے گئے ہیں کہ یہ کوئی ہندو مسلم فساد ہی نہیں تھا، انہوں نے "اس قتل کو ایک حادثہ قرار دیا! اب ایسے حالات میں جب سیاسی لیڈران جنکا کام مظلوموں کو انصاف دلانا ہے، اور مجرموں کو سزا دلوانا ہے "جب ایسے ہی لوگ مجرمین کی پشت پناہی کرینگے تو حالات کیا ہونگے یہ ظاہر ہے اور اسکا مشاہدہ بھی ہورہا ہے!
آزادی کے بعد سے ہی اس ملک میں اکثریت کی جانب سے اندر خانہ یہ تحریک چلائی جارہی ہے کہ مسلمانوں کا اس ملک پر کوئی حق نہیں، انکے دلوں کے اندر نفرت کا بازار گرم کیا جارہا ہے، انکو نفرت کی بھٹی میں تپایا جارہا ہے ”
اور اس میں سب سے زیادہ سرکاری عہدہ داران سیاسی لیڈران پولیس انتظامیہ ملوث ہے، انڈیا کی پولیس اتنی ناکارہ ہے، کہ عام آدمی انکی آنکھوں کے سامنے خونی کھیل کھیلتے ہیں، قتل کرتے ہیں اور یہ تماشائی بنے نظارہ کررہے ہوتے ہیں!
گزشتہ بیس اکتوبر کو سیتامڑھی میں درگا مورتی وسرجن کے دوران فرقہ پرست لوگوں نے، لوٹ مار، سفاکی اور قتل و غارت گری کا وہ کھیل کھیلا کہ کچھ ہی وقت میں کئی جانیں چلی گئیں "لاکھوں کی املاک کا نقصان ہوا،
اس پر مفصل تحریرں موجود ہیں کہ حادثہ کس طرح پیش آیا اور اسکے اسباب کیا تھے ”
اب سوال یہ ہیکہ اس ملک کے وہ فرقہ پرست لوگ جو اپنے آپکو، قانون سے بالاتر خیال کرتے ہیں جہاں چاہتے ہیں جب چاہتے ہیں، قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے ہیں ‘معصوموں اور بزرگوں کا بے دردی سے قتل کرتے ہیں،، انکو سزا کون دلوائےگا "کیا کچھ لوگوں کی گرفتاری سے نتیش کمار، ان اموات کی تلافی کرسکیں گے "جو اس فساد میں مارے گئے!
اس میں شک نہیں ہے کہ اس وقت ملک کے جو حالات ہیں شاید ہی آزادی کے بعد ایسے حالات آئے ہوں ‘
بی جے پی کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے ہی ایک طبقہ اس ملک کو ہندو راشٹر کی نگاہ سے دیکھنے لگا ہے، اور وقفہ وقفہ سے مختلف اشکال میں، اسکا اظہار کیا جاتا رہا ہے ”
کبھی سپریم کورٹ کی مخالفت کرکے "کبھی رام مندرکا مسئلہ اٹھاکر "کبھی گائے کا نام لےکر "میری نظر میں اس وقت ہونے والے فسادات اور حالات اس بات کی عکاسی کررہی ہے "کہ موجودہ حکومت چونکہ ہر میدان میں پھیل ہوچکی، ایلکشن قریب ہیں، ملک کی عوام سے جو وعدے انہوں نے کئے تھے وہ پورے کے پورے فلاپ ہوگئے "ہندؤں کی آخری امید رام مندر،، کی تعمیر بھی مکمل نہ ہوسکی، جسکے خواب ہندو اکثریت، بی جے پی کے آنے کے بعد سے ہی دیکھ رہی ہے، اس لئے اس وقت موجودہ حکومت اپنا دامن بچانے کے لئے اس طرح کے معاملات کراتی ہے اور اس پر چپ رہتی ہے، مجرموں کو آزادی دے دی جاتی ہے اور وہ علاقہ جو حساس ہے جہاں ہندو مسلم کی ملی جلی آبادی ہے، اس طرح کے فسادات کرائےجاتے ہیں تاکہ ملکی محاذ پر ہندو متحد ہوجائے اور اسکا فائدہ براہ راست ہندتو اور ہندو ازم کے نام ہر ہمیں ہہونچے ”
میری درخواست بہار سرکار سے ہے کہ اس ملک کی جمہوریت کو باقی رکھنے کی ذمہ داری عوام سے زیادہ سرکار کی ہے، وہ انصاف سے کام لےاور جو اس فساد میں ملوث تھے، انکی تحقیق ہو، اور انکو سخت سزا دی جائے، اور جو مالی نقصانات ہوئے ہیں اسکی تلافی کے لئے بھی کوئی انتظام کرے!
محمد سیف الاسلام مدنی
پکھرایاں ضلع کانپور دیہات یوپی