ڈاکٹر سلیم خان
کبر سنی میں فرصت جوانی کی یادوں کوتازہ کردیتی ہے۔ دورِ شباب کے وہ دوست واحباب بھی یادآنے لگتے ہیں جو داغِ مفارقت دے کرجہان فانی سے کوچ کرگئے ہوں لیکن بستر پر لیٹا ہواعبدل امریکہ میں رہائش پذیراپنےدوست میہول کو یاد کررہا تھا ۔ اس نے سوچا وہاں تو صبح ہوگی کیوں نہ ویڈیوکال پر بات کی جائے۔ تکیہ کے نیچے موبائل تلاش کیا تو خیال آیا کہ وہ اوپر کی منزل پر چھوٹ گیا ہے۔ اوپر پہنچ کر بتی جلائی تو معلوم ہوا اندھیرا پھیلا ہوا ہے کیونکہ بلب خراب ہے ۔ عبدل نے نیچے آواز دے کر اپنے پوتے سے کہا بیٹے ایمرجنسی لائٹ لے آو تو اس نے لیٹے ہوئے جواب دیا اوپر سیڑھیوں کے پاس الماری میں رکھی ہے۔ عبدل نے اندازے سے الماری میں رکھی ایمرجنسی لائٹ ٹٹول کر چلا دی۔ کمرے میں روشنی پھیل گئی لیکن اب عبدل کو اپنے ایک اوربھول کا احساس ہوا۔ وہ اپنی عینک نیچے چھوڑ آیا تھا۔ عینک کے بغیر موبائل فون کو تلاش کرنا عبدل کے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس نے سوچا اب نیچے جاکر عینک لانے اور پھر موبائل تلاش کرکے بات کرنے سے بہتر ہے اس نصف ملاقات کو کل پر ٹال دیاجائے۔ عبدل زینے سے اترتے ہوئے سوچ رہا تھا ۔ کون جانے کل ہو نہ ہو؟ ان سیڑھیوں پرساری عمر اوپر نیچے آنے جانے والے عبدل کو یہ خیال پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔
بستر پر دراز عبدل اپنے دوست کے بارے میں سوچتے سوچتے اپنی مجبوریوں پر غور کرنے لگا۔ میہول سے مجازی ملاقات کے لیے لوازمات کا جائزہ نے اسے اپنے آپ سے ہمکلام کردیا۔ اس کے پاس اگر فون موجود نہ ہوتا تو کیا وہ اس آسانی کے ساتھ اپنے دوست سے گفتگو کا ارادہ کرسکتا تھا؟ لیکن کیا فون کا ہونا کافی ہے؟ فون تو موجود ہے۔ انٹر نیٹ کا وائی فائی کنکشن بھی ہے جس کے ذریعہ سے دنیا بھر میں پھیلے ان دوستوں سے رابطہ کیا جاسکتا ہے جو اس نعمتِ خداوندی سے بہرہ مند ہیں لیکن موبائل فون اگر کسی تاریک کمرے میں کھوگیا ہو تو اس تک رسائی کے لیے روشنی بھی تو ضروری ہے۔ فون ہاتھ ہی نہ لگے تو وائی فائی اور ۴ جی کس کام کا؟ اپنی ناکامی کے لیے فون کو نگل جانے والی تاریکی کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بعد عبدل کوخیال آیا کہ اندھیرے کی چادر کو تار تار کرنے میں تو وہ کامیاب ہوگیا تھا مگر عینک کی عدم موجودگی نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ اس کا چشمہ اگر ساتھ ہوتا یا آنکھوں کی روشنی عینک سے بے نیاز ہوتی تو محرومی ہاتھ نہ آتی ۔ لیکن اگر اجالا نہ ہوتا تو آنکھیں کس کام آتیں اور موبائل ہی نہ ہوتا تووہ دونوں بیکار ہوجاتے ۔ اس طرح کے سوالات میں غلطاں عبدل نہ جانے کب نیند کی آغوش میں کھوگیا ۔
ارشاد ربانی ہے: ’’زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں نشانیاں ہیں‘‘۔ یہ نشانیاں موبائل کی مانند رب کی معرفت تو کرواسکتی ہیں لیکن اس کے لیے بصارت یعنی عقل و شعوراور اس کی تقویت کے لیے غورو فکرکی عینک ضروری ہے ۔ اس لیے کہ نشانیوں کی بابت فرمایا یہ’’ہوش مند(عقلمند) لوگوں کے لیے‘‘ ہیں ۔ معرفت کے ان خارجی و داخلی وسائل سے استفادہ کے لیے روشنی بھی لازمی ہے ۔ رب کائنات اپنی کتاب کے نزول کی غرض و غایت یوں بیان فرماتا ہے ’’ (یہ) ایک (پُرنور) کتاب (ہے) اس کو ہم نے تم پر اس لیے نازل کیا ہے کہ لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاؤ (یعنی) ان کے پروردگار کے حکم سے غالب اور قابل تعریف (خدا) کے رستے کی طرف‘‘۔ صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے والے پاکیزہ نفوس کی کیفیت اس طرح بیان ہوئی ہے کہ ’’ جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بو ل اٹھتے ہیں) "پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے‘‘ ۔ افتخار عارف معرفت کےلوازمات یوں بیان کرتے ہیں؎
سبیل ہے اور صراط ہے اور روشنی ہے اک عبد مولٰی صفات ہے اور روشنی ہے