*جو بول دوں تو زباں جلے ھے*

’’خود احتسابی‘‘
*سید حسین شمسی*

اشاعت: جمعہ، 19 اکتوبر 2018

سوشل میڈیا پر آج کل یہ خبریں خوب گشت کر رہی ہیں کہ ایک منظم سازش کے تحت مسلم لڑکیاں ہندو لڑکوں کا ’’لقمہ تر‘‘ بن رہی ہیں، مسلم لڑکیاں بکثرت ہندو لڑکوں کی جانب مائل ہورہی ہیں۔ باقاعدہ سروے رپورٹ پیش کی جارہی ہے کہ گزشتہ سال دو سال میں اس رجحان میں نہ صرف یہ کہ حد درجہ اضافہ ہوا ہے بلکہ ہندو شدت پسند تنظیموں کی جانب سے مسلم لڑکیوں کو ’’دعوتِ عشق و آزادی‘‘ دی جارہی ہے، حیرت تو یہ ہے کہ مسلم لڑکیاں بھی اس جانب مائل ہونے کا اظہار بلا تأمل و بلاتردد کر رہی ہیں۔ ظاہر ہے سوشل میڈیا پر ہندو لڑکوں اور مسلم لڑکیوں کی وائرل ہونے والی ساری تصاویر اور اعدادوشمار درست ومصدقہ تو نہیں لیکن کافی حد تک اس میں سچائی بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم حلقوں میں بھی بے چینی پائی جارہی ہے۔ مسلم حلقوں کے بعض بے چین ’اکابر و قائد‘ مسلم معاشرہ میں اس بڑھتے بگاڑ کی وجہ صرف اور صرف مسلم لڑکیوں کی بے پردگی، بے غیرتی، بے حیائی اور مخلوط تعلیمی سسٹم گردان رہے ہیں۔ اپنے اخباری ومنبری بیانات میں بھی اسی درد کا اظہار کر رہے ہیں۔ جبکہ وجوہات اور بھی ہیں جس پر ہم کلام تک نہیں کرتے۔

سچ پوچھئے تو اسکول وکالجز جانے والے اپنے بچوں کو ہم دینی تعلیم کے نام پر درود و فاتحہ اور قرآن مجید کی چند چھوٹی سورتوں کے علاوہ کچھ نہیں دیتے۔ انہیں یہ تک نہیں سمجھاتے کہ دین ایک شعوری عمل ہے، سیرتِ طیبہ اور حیاتِ صحابہ وصحابیات کے بارے میں نہ خود کچھ جانتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو اخلاقِ حسنہ کا درس دینا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب مسلم بچے تعلیمی میدان میں قدم بہ قدم آگے بڑھتے جاتے ہیں تو ان کی سوچ بھی بتدریج ماڈرن ہوتی جاتی ہے۔ اس دوران شرعی حدود کے تئیں والدین کی عدم توجہی، بیٹے بیٹیوں کو بے راہ روی کا شکار ہونے اور انتہائی قدم اٹھانے سے باز نہیں رکھ پاتی۔ سو تعلیمی ہدف کے آخری پڑاؤ پر جب کوئی نوخیز لڑکی ازخود کسی کو اپنا سنگی ساتھی بناتی ہے تو وہ مذہب اور معاشرے کی تمیز نہیں کرتی۔ اس کی نظر میں صرف اور صرف کریئر و فیوچر ہوتا ہے۔ اب اپنے تابناک مستقبل کے لئے اُسے کسی ہندو لڑکے کو شریکِ حیات بنانا پڑے تو کوئی عار نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسلم لڑکیوں کو غیر مسلم لڑکے ہی کیوں نظر آنے لگے، تو ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ مسلم لڑکوں کا تعلیمی گیراف گزشتہ ایک دہائی میں حد درجہ نیچے گرا ہے۔ غور کریں گے تو یہ حقیقت آپ پر پوری طرح عیاں ہوجائے گی کہ کسی بھی اسٹیٹ کا جب تعلیمی رزلٹ آتا ہے تو اخباری سرخیاں یہی ہوتی ہیں کہ ’’لڑکیوں نے ایک بار پھر بازی ماری‘‘ معلوم ہواکہ مجموعی طور پر لڑکے پیچھے رہ جاتے ہیں اور مسلم لڑکے جو عام طور پر ڈراپ آؤٹ کا شکار ہو جاتے ہیں وہ اپنے تعلیمی سلسلے کو زیادہ آگے بڑھانے کا خود کو اہل نہیں پاتے۔ اس کے برعکس مسلم لڑکیاں تعلیم کے تئیں قدرے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہدف کو پالیتی ہیں۔ لہٰذا اعلیٰ تعلیم سے سرفراز ہونے کے بعد یہ لڑکیاں فطرتاً اپنے ہم پلّہ لڑکوں کو ہی حسنِ انتخاب بنائیں گی۔ سمجھ میں یہ آیا کہ ماڈرن تعلیمی میدان میں مسلم لڑکوں کا پیچھے رہ جانا بھی اس بڑھتی لعنت و برائی کا بڑا سبب ہے۔

اب آئیے اس پہلو پر گفتگو کرتے ہیں کہ گزشتہ سال، دوسال میں مسلم لڑکیاں ہندو لڑکوں کی جانب بکثرت کیوں مائل ہورہی ہیں؟ مسلمانوں پر ’لوجہاد‘ کا الزام عائد کرنے والی ہندو شدت پسند تنظیموں نے اب ’ریورس لوجہاد‘ کا نعرہ دیا ہے۔ ہندو واہنی تنظیم نے ہندو لڑکوں کو اکساتے ہوئے یہ ترغیب دی ہے کہ جو بھی ہندو لڑکا کسی مسلم لڑکی کو شادی کیلئے بھگا کے لاتا ہے اُسے ہم نہ صرف یہ کہ تحفظ فراہم کریں گے بلکہ بطور انعام ڈھائی لاکھ روپے بھی دیں گے۔ علاوہ ازیں ابتدائی گزر بسر کیلئے 6 ماہ تک راشن بھی مہیا کرائیں گے۔ اسی طرح ہندو جن جاگرن نے اس ضمن میں اپنی کامیاب مہم کا ذکر کرتے ہوئے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ہمارے ’کارندے‘ باقاعدہ اس مشن پر لگے ہیں کہ مسلم لڑکیوں کو اپنے عشقیہ جال میں پھانسیں، ان کا شدھی کرن کریں اور سات پھیرے لگائیں، ان تنظیموں نے باضابطہ ایک ٹارگیٹ لے رکھا ہے کہ آئندہ دو برسوں میں کم از کم چار ہزار مسلم لڑکیوں کو ہندو گھروں کی بہو بنانا ہے۔

یوں تو باطل طاقتیں ہر دور میں اس طرز کی ناپاک کوششیں کرتی رہی ہیں اور کرتی رہیں گی، لیکن ان کو کامیابی اسی وقت ملی ہے جب ہمارے اپنوں میں شگاف پڑی۔ ذرا سوچئے! یہ شدت پسند تنظیمیں مسلم لڑکیوں کو لبھانے کیلئے گزشتہ دو برسوں سے ایسا نعرہ کیوں دے رہی ہیں کہ ’’ہمارے یہاں ٹریپل طلاق کی مار نہیں بلکہ سات جنموں کا ساتھ اور سدا سہاگن کا رواج ہے‘‘۔ آپ اس نعرہ کو ڈھکوسلہ اور خالص ڈھکوسلہ کہہ سکتے ہیں، لیکن گریبان میں جھانکئے اور اپنی غفلتوں کا ایمانداری سے محاسبہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ مسئلہ طلاقِ ثلاثہ جو مفتی اور قاضی یا متاثرہ کے درمیان ہوا کرتا تھا، اس کو آج بچہ بچہ جان گیا ہے۔ اس کے جواز وعدم جواز کی بحث کو ہم نے عدالتوں، پارلیمانی ایوانوں، نیوز چینلوں کی چوپالوں اور سڑکوں پر لا دیاہے۔ بلاشبہ یہ بحث اسکول وکالجز میں بھی ہوئی ہوگی اور مسلم طلباء کوئی تشفی بخش جواب دینے سے عاجز بھی رہے ہوں گے۔ یہی وہ نازک مقام ہے جہاں مسلم لڑکیاں دینی معاملات میں کم علمی اور عقیدت میں نیم پختگی کے باعث بہ آسانی بہکاوے میں آسکتی ہیں۔ کیونکہ صنفِ نازک خواہ وہ کسی بھی مذہب یا عقیدہ سے تعلق رکھتی ہو اسے سب سے زیادہ اپنا تحفظ محبوب ومطلوب ہوتا ہے۔ سماجی طور پر بھی تحفظ اور شادی بیاہ میں بھی تحفظ چاہتی ہے۔ حالانکہ عورتوں کو یہ تحفظ سب سے زیادہ شریعہ اسلام ہی دیتا ہے، لیکن ہمارا مسلم معاشرہ ان کو بتانے، سمجھانے اور ان کے سامنے عملی نمونہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔

افسوس تو یہ ہے کہ ہم طلاقِ ثلاثہ سے متعلق سپریم کورٹ میں پیروی تک قاعدے سے نہ کرسکے۔ طلاقِ ثلاثہ کے خلاف سپریم کور ٹ جانے والی عورتوں کو۔ ہم ناخلف کہتے رہے اور دفاع میں کوئی ایسی دلیل نہ پیش کرسکے کہ پانچ ججوں کی بنچ میں سے کوئی ایک جج بھی آپ کے حق میں کوئی بات کہتا۔ ہماری قائدانہ صلاحیت تو دیکھئے کہ شکست کھانے کے باوجود اپنی فتح کا اعلان کر رہے ہیں۔ خیال رہے ہم نے یہ شکست صرف عدالتِ عظمیٰ میں نہیں کھائی، بلکہ اس معاملے میں ہر محاذ پر شکست سے دوچار ہوئے ہیں۔ خواہ وہ نیوز چینلز کی ڈی بیٹ ہو کہ سڑکوں پر خواتین کا احتجاجی جلوس۔ عدالتِ عظمیٰ میں بحث کیلئے ہماری تیاری کس پایہ کی تھی اس کا اندازہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اہم رکن قاسم الیاس رسول کے اس بیان سے لگائیے۔۔۔۔ فرماتے ہیں کہ ’’اگر عدالت میں طلاقِ ثلاثہ کی دونوں شق (بمعنی تین طلاق اور ایک طلاق) ہم نے رکھ دی ہوتی تو سپریم کورٹ کا فیصلہ کچھ اور ہی ہوتا‘‘۔

مسلم لڑکیوں کے ہندو لڑکوں کی جانب بڑھتے رجحان پر تشویش ظاہر کرنے اور مسلم لڑکیوں کو بے غیرت و بے حیا اور نہ جانے کیا کیا کہنے والے کاش طلاقِ ثلاثہ کے جواز میں عورتوں کو گھروں سے باہر نکالنے اور بڑے بڑے جلوس و ریلیاں برپا کرنے کے بجائے گھر گھر جاکر مسلم لڑکیوں کو اسلامی تہذیب وتشخص سے روشناس کراتے اور بے راہ روی کی شکار مسلم لڑکیوں کی ایمانی کمزوری کو دور کرتے، یقینًا اس کے مثبت و بہتر اثرات منتج ہوتے۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے لڑکیوں کی تعلیم کیلئے اسلامک طرز کے اسکول ومدارس قائم کر رکھے ہیں، یہ لڑکیاں ایسے اداروں میں آکر اسلامی تعلیمات سے روشناس ہوسکتی ہیں۔ نہیں جناب۔۔۔! اس بگڑتے معاشرے میں آپ کی ذمہ داری یہیں ختم نہیں ہوجاتی، آپ کو اگر مسلم لڑکیوں کا ہندو لڑکوں کی جانب مائل ہونا پسند نہیں تو ان لڑکیوں اور ان کے سرپرست کی عقلوں پر ماتم کرنے اور انہیں کوسنے کے بجائے حقیقی اصلاح معاشرہ کا نمونہ پیش کرنا ہوگا۔ جب باطل ہماری بچیوں کو بہکا سکتے ہیں تو ہم انہیں سمجھا کیوں نہیں سکتے؟ سب ممکن ہے، ضرورت ہے تو بس اپنی ذمہ داری کو سمجھنے اور اس کی ادائیگی کی فکر کرنے کی۔

آخر میں ایک بات اور۔۔۔۔ جس طرح ہم ہندو لڑکوں کی جانب مسلم لڑکیوں کے مائل ہونے پر متشوّش ہیں، اسی طرح مسلم نوجوانوں کی بے راہ روی پر بھی درد وکرب کا اظہار کریں۔ مسلم نوجوان جن پر قوم کی بڑی ذمہ داری عائد ھوتی ھے وہ ھر معاملہ سے غافل نظر آتے ھیں۔ حالات کیسے ہیں، قوم کدھر جارہی ہے، اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ آخر ان مسلم نوجوانوں کو راہ راست پر لانے کی سنجیدہ کوشش کیوں نہیں کی جاتی؟ حالانکہ اس کے لئے بہترین مقام مساجد کے منبر ہیں، جہاں جمعہ کے خطبات کے ذریعہ ہر جمعہ ایک نئے سلگتے موضوع پر ان کی ذہن سازی باآسانی کی جاسکتی ہے لیکن افسوس۔۔۔۔۔۔!!