بھاجپائی سرکار میں پولیس اور سرکاری مشینری بے لگام!

سہارنپور ( احمد رضا) ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اپنے ہر پروگرام میں اپنی سرکار کی تعریف کے پل باندھتے نظر آتے ہیںیہ حالت جب ہیکہ یہاں کمزور اور پچھڑی اقوام کیساتھ غلاموں جیسا برتاؤ دیکھنے کو مل رہاہے بھاجپائی سرکاریں صاف ستھرا کامکاج چلانیکا ڈنکا جتنا چاہیں بجائیں مگر سچائی یہ ہے کہ اندنوں ملک کے حالات بیحد مشکل بھرے ہیں عدم رواداری عام ہے گزشتہ دنوں یہاں دہلی روڈ واقع مہاراجہ پیلیس میں ایک تقریب کو خطاب کرتے ہوئے سوشل اور ہیومن رائٹ رہبر سبھاشنی علی نے یہ بھی کہاکہ یہاں مسلم ،دلت اور عیسائی کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کا سیکولر طبقہ بھی بھاجپائی ہیٹ کا شکار ہے سینئر رہبروں اور ادیبوں کو دنگا بھڑکانیکے الزام میں گزشتہ کافی دن سے گھروں میں نظر کیا ہواہے جو سرکاری ذہنیت اور سوچ کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے سبھاشنی علی نے صاف کہاکہ دہشت پھیلاکر لوک سبھا چناؤ جیت نیکی تیاریاں جاری ہیں سرکاری مشینری اور پولیس کی داداگری سب کے سامنے ہے ریاستی راجدھانی میں ہی عام آدمی محفوظ نہی ہے یہاں چند طاقتور نفی سوچ والے سیاست داں اور انکے چہیتے افسران ہمیشہ ہی اقلیتوں، پچھڑوں، پسماندطبقوں اور دلت طبقہ کے افراد کونشانہ بناتے رہتے ہیں!
ایک دیگر اہم بیان میں آج یہاں کانگریسی قائد چودھری مظفر نے کہاہیئکہ بھاجپائی سرکار میں جو ظلم مجبور اور مظلوم فرقوں پر کیاگیا وہ کسی سے پوشیدہ نہی یوپی میں سولہ ماہ پرانی بھاجپا سرکار نے جو کارکردگی انجام دی ہے اس کارکردگی سے مفلس عوام ٹوٹ کر رہگیا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ سب سے زیادہ گؤکشی کے جبریہ واقعات اور لاقانونیت کے نام پر یہاں اقلیتی طبقہ کو ہی سرکاری مشینری نے اپنے عتاب کا شکار بنایا ہے جو غیر مہذب اور غیر قانونی فعل ہے ہم اسکی بھر پور مذمت کرتے ہیں! کانگریسی قائد چودھری مظفر نے کہا کہ اندنوں ریاست کے حالات بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں یہاں اقلیتی فرقہ اور دلت فرقہ کیساتھ ساتھ منصفانہ روش پر چلنیوالے افراد بھی تنگ اور پریشان ہیں یہاں بھاجپائی عناصر اور غنڈہ گردی کرنیوالوں کا دب دبہ ہے مقامی سطح پر گؤ کشی کا بہانہ بناکر آج بھی کمشنری میں ہندو انتہا پسندوں کا بول بالاہے ان شاطروں کے سامنے پولیس اور افسران اکثر ہاتھ جوڑے نظر آتے ہیں ان عناصر نے آجکل جہاں گوشت کے کاروباریوں مویشی تاجروں کا جینا محال کیاہواہے وہیں معقول لائسینس اور اجازت نامہ کے باوجود بھی کھیتی باڑی کیلئے مویشیوں کا ایک ضلع سے دوسرے ضلع کو لیکر لانا کسانوں اور عام افراد کی جان کیلئے ایک آفت بناہے مذہبی تکرار ، نسلی اختلافات اور سیاسی دشمنی یہاں عام ہے ہند یوا واہنی کے نعروں کے ساتھ یہ شاطر گروہ بند افراد جب چاہیں جسکو چاہیں کہیں بھی روک لیتے ہیں اور زرد کوب کرتے ہوئے مویشی اور مال واسباب لوٹ لیتے ہیں اترپردیش کی یوگی سرکار سے قانون سے کھیلنے والوں پر سختی کئے جانے کی ہدایت ملنے کے بعد بھی یہاں غنڈہ گردی عام ہے ! کانگریسی قائد چودھری مظفر نے کہا کہ ہمارے چیف منسٹر کہتے ہیں کہ بد امنی پھیلانے والے عناصر کی سرکوبی اور لا قانونیت کے خاتمہ کیلئے سرکار کسی بھی طرح کا ایکشن لینے سے گریز نہی کریگی مگر اسکے بعد بھی ہاپوڑ ضلع کے تحت کبھی مسلم فرقہ پر اور کبھی دلت فرقہ پر پولیس نے جو جبر ڈھایا اسکی کہیں مثال ہی نہی ملیگی اسکے بعد بھی سرکار نے پولیس کیخلاف کوئی ایکشن نہی لیا!لکھنؤ میں پولیس نے جس انداز میں وویک تیواری کو گولی ماری گئی وہ اسی نفی اور دہشت پھیلانیوالی سوچ کا نتیجہ ہے یہی سب کچھ تشدد اقلیتی فرقہ اور دلت قوم ایک لمبے عرصہ سے برداشت کرتے آرہے ہیں اونچی ذات اور اونچی پہنچ والے افراد پر ہمیشہ ہی سرکاری نمائندوں اور افسران کی عنایت رہتی ہے وویک تیواری کو کس بھرم میں گولی ماری گئی یہ عقل سے باہر ہے اگر یہ گولی کسی مسلم یا دلت کو لگی ہوتی تو اب تک اسکو دہشت گرد یانکسلی ثابت کردیاگیاہوتا تیواری کی موت پر سبھی چپ بیٹھ گئے آخر سرکاری مشینری کا یہ جبر اور خوف کب تک ؟