پروفیسر حافظ سیف الاسلام کے انتقال سے دوگھرا میں ماتمی سناٹا ۔ علم وادب سے جڑی موقر ہستیوں کا موصوف کی رحلت پر اظہار تعزیت ۔

جالے۔ 30 /ستمبر
علم وادب کی بستی دوگهرا کے باشندہ، مدرسہ قاسم العلوم حسینہ دوگهرا کے باوقار استاد ، قاضی احمد جالے کالج کے پروفیسر، دوگهرا پنچایت کے سابق مکهیا حافظ عبدالجلیل صاحب کے صاحبزادہ، اردو کے معروف نقاد پروفیسر ابوالکلام قاسمی کے منجھلے بهائی اور اپنی زندگی کے طویل سفر میں کئی نسلوں کے مربی حافظ سیف الاسلام کا اتوار کو ساڑھے پانچ بجے صبح انتقال ہوگیا.ان کے اچانک انتقال سے پورے علاقے میں غم کا ماحول ہے نومبر میں ہی وہ اپنے فرائض سے سبکدوش ہونے والے تهے مرحوم کی عمر تقریبا 60 سال تهی پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ ایک بیٹا فیض الاسلام جو ریسرچ کے طالب علم ہیں اور ایک بیٹی ڈاکٹر قرت العین جو ہائی اسکول کی ٹیچر ہیں شامل ہیں. مرحوم نہایت خلیق اور ملنسار تهے. ان کی نماز جنازہ بعد نماز ظہر دوگھرا کے باوقار عالم مولانا معین نے پڑھائی اور ہزاروں سوگوار نے انہیں مقامی قبرستان میں دفن کیا،واضح ہوکہ جمعہ کو تقریبا ساڑھے گیارہ بجے سیتامڑهی میں ٹاٹا 407 نے ان کی موٹرسائیکل میں ٹکر ماردی تهی جس کے سبب وہ شدید زخمی هوگئے تهے. آنافانا میں انہیں مظفرپور لے جایا گیا جہاں انہوں نے آج آخری سانس لی.ان کے انتقال پر مختلف شعبہ ہائے حیات کی سرکردہ شخصیات نے غم کا اظہار کیا ہے جن میں مدرسہ قاسم العلوم دوگھرا کے سابق پرنسپل مولانا اسرار احمد شگفتہ ،مولانا ابوالکلام قاسمی ،مولانا نعیم الدین قاسمی سابق استاد مدرسہ قاسم العلوم دوگھرا، مولانا ڈاکٹر شمیم سالک مظاہری صدر الہلال ایجوکیشنل ٹرسٹ بنگلور ،مولانا نسیم سالک قاسمی مہتمم مدرسہ المعہد الشفیق للعلوم الاسلامیہ بنگلور مولانا محب الحسن ،ماسٹر مفید عالم، حافظ محمد سفیان ،مولانا معین ،ماسٹر علاء الدین، عبادت علی مدرسہ قاسم العلوم دوگھرا،طارق انور سکریٹری مدرسہ قاسم العلوم دوگھرا، حافظ عبد القادر ،مولانا دبیر عالم ،مولانا شاہد وصی ،قاری شمیم احمد ،محمد ارشد ہمارا سماج، مولانا عظمت اللہ ،مولانا جابر حسین، مولانا شہاب الدین ،مولانا آفتاب عالم ،حافظ محمد رضاء اللہ، نور عالم سابق مکھیا دوگھرا، حاجی صابر حسین،فضل عالم ڈیلر ،ماسٹر محمد جوہی ،سرفراز احمد سابق مکھیا دوگھرا، محمد نظر عالم پنچایت سمیتی، سرگرم سیاسی لیڈر اصغر علی، ڈاکٹر سرفراز صدر مدرسہ قاسم العلوم دوگھرا، ڈاکٹر محمد منا،ڈاکٹر جوہی ،ماسٹر امجد علی، اسماعیل سیٹھ، محمد رفیق سیٹھ ،قمر الزماں ،محمد ذاکر سہارا، مولانا وصی احمد کے علاوہ خاص طور سے پیام انسانیت ٹرسٹ کے صدر اور اسلامک مشن اسکول کے ڈائریکٹر مولانا محمد ارشد فیضی قاسمی نے موصوف کی رحلت پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک اجتماعی خسارہ قرار دیا ہے مولانا فیضی نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ حافظ سیف الاسلام نہایت دیندار ،شریف ،با اخلاق ،ملنسار ،ایک دوسرے کے ہمدرد اور ہر کسی سے بے حد محبت کرنے والے انسان تھے اور بس یہی نہیں بلکہ ان کی سادگی ہر کسی کو ان کا گرویدہ بنائے رکھتی تھی اس لئے ان کی وفات سے دوگھرا پر غم کا جو پہاڑ ٹوٹا ہے اور جس طرح یہاں گھر گھر میں ماتمی سناٹا چھایا ہے اس سے یہاں کے لوگوں کو نکلنے میں کافی وقت لگے گا انہوں نے کہا کہ حافظ صاحب ذاتی طور پر بھی مجھ سے بے پناہ محبت کرتے اور وقفہ وقفہ سے اپنا قیمتی مشورہ دیا کرتے تھے اس لئے ان کی رحلت کو میں اپنا ذاتی خسارہ مانتا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنا قیمتی سرمایہ کھودیا ہے ،انہوں نے کہا کہ بااخلاق اور پاکیزہ کردار کے لوگ کبھی نہیں مرتے بلکہ بعد کی نسلیں اپنی فکروں میں انہیں زندہ رکھتی ہیں میں سمجھتا ہوں کہ جن نسلوں کی انہوں نے تربیت کی ہے وہ ہمیشہ انہیں زندہ رکھیں گی،مولانا فیضی نے کہا کہ ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ہمیشہ اپنے سے چھوٹوں کی کامیابی پر خوش ہوتے اور ان کے اقدام کی سراہنا کرتے تھے جس کا بارہا مجھےذاتی تجربہ ہوا مرحوم کے انتقال کی خبر ملتے ہی مدرسہ قاسم العلوم حسینیہ دوگھرا اور معہد الصالحات دوگھراسمیت مختلف اداروں میں قرآن خوانی اور دعا کا اہتمام کیا گیا اور علماء ودانشوران نے اپنی تعزیت کا اظہار کیا مولانا اسرار احمد شگفتہ نے کہا کہ حافظ سیف الاسلام کی سب سے بڑی خوبی رشتے کو نبھانے کی تھی وہ رشتے کو نبھانے اور ایک دوسرے کا احترام کرنے کا خاص ہنر رکھتے تھے، مولانا نعیم الدین قاسمی سابق استاد مدرسہ قاسم العلوم نے کہا کہ میں نے انہیں ہمیشہ خودداری کے ساتھ اپنے مشن کی طرف آگے بڑھتے دیکھا ہے وہ صاف گو اور نیک صفت انسان تھے جس کے یہاں فضول گفتگو کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی ،حافظ سفیان نے کہا کہ ہم نے ایک ساتھ اپنی زندگی کا طویل سفر طے کیا مگر اس پورے سفر میں ایک دوسرے کے بیچ کبھی بے اعتمادی کے پیدا نہ ہونے میں ان کے خلوص کا خاص دخل تھا ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے دل کی ہر بات سامنے ہی کہ دیتے تھے ماسٹر علاء الدین نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ وہ بہت نرم دل انسان تھے جو دوسرے کے غم سے بہت جلد دکھی ہو جاتے تھے انہوں نے کہا کہ مجھے ان کے جانے سے بہت صدمہ ہوا ہے ان کے علاوہ گاوں کے بیشتر لوگوں نے اپنے تاثرات میں کہا کہ انہیں بھلاپانا آسان نہیں ہوگا بلکہ ان کی یادیں ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گی