آئین جلانےوالے ہی آئین پر چلنے کی بات کرنےلگے ہیں؟ بھاجپائی قیادت عوام پر رعب غالب کرنے پر بضد۔ اے ایچ ملک

سہارنپور ( احمد رضا) گورکھپور میں ریاستی چیف منسٹر یوگی آد تیہ ناتھ کا یہ بیان کہ دیش فتوؤں سے نہی بلکہ آئین سے چلیگا یہ بات انکے منھ سے اچھی نہی لگتی کیونکہ مرکز میں جب سے بھاجپائی سرکار آئی ہے تب سے آئین ہند کو مذاق بنادیا گیاہے سڑکوں پر آج آئین جلارہے ہیں یہی آئین کیخلاف کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ ہیں ملک میں مسلم سرکار نہی کہ یہاں فتوے لاگو ہونگے یہاں تو فتوے صرف مسلم افراد کیلئے ہے پورے ملک کیلئے نہی اس طرح کے بیانات دینا ملک کے سوا ارب عوام کے درمیان غلط فہمی اور نفرت پیدا کرنیوالے ہیں اس طرح کی بیان بازی ملک کے اتحاد کیلئے بھی خطرناک ہے! مندرجہ بالا خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پچھڑا سماج مہا سبھا کے قومی چیف اے ایچ ملک نے بیباک انداز میں کہاکہ گزشتہ پندرہ ماہ سے ریاست کے بیشتر اضلاع لوجہاد، نسلی تکرار، گؤ کشی ، رام مندر تنازعہ اور مذہبی تشد کے واقعات سے دوچار ہیں ریاستی سرکار اور اسکے سربراہان کچھ بھی کہیں مگر یہ سچ ہیکہ ریاست کے حالات بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں یہاں اقلیتی فرقہ اور دلت فرقہ کیساتھ ساتھ منصفانہ روش پر چلنیوالے افراد بھی تنگ اور پریشان ہیں یہاں بھاجپائی عناصر اور غنڈہ گردی کرنیوالوں کا دب دبہ ہے مقامی سطح پر گؤ کشی اور دیش بھگتی کا بہانہ بناکر آجریاست میں ہندو انتہا پسندوں کا بول بالاہے میرٹھ میڈیکل کالج کی طالبہ اور مسلم طالب علم کیساتھ میرٹھ کے جاگرتی وہار میں وشو ہندوپریشد کے کارکنان اور پولیس ملازمین نے جو نازیبا سلوک کیا وہ سبھی نے دیکھا اور سناہے یہاں مسلم طالب علم کو پھنسانیکے لئے لڑکی کو پیٹاگیا اور مسلم لڑکے کیخلاف جھوٹے بیان دینے کیلئے تھڑ ڈگری کا استعمال بھی کیاگیاان شاطروں کے سامنے پولیس اور افسران ہاتھ جوڑے نظر آتے ہیں ان عناصر نے آجکل جہاں گوشت کے کاروباریوں مویشی تاجروں کا جینا محال کیاہواہے وہیں معقول لائسینس اور اجازت نامہ کے باوجود بھی کھیتی باڑی کیلئے مویشیوں کا ایک ضلع سے دوسرے ضلع کو لیکر جانا اور لانا بھی عام افراد کی جان کیلئے ایک آفت بنا چکاہے جو غیر آئینی فعل ہے!
مذہبی تکرار ، نسلی اختلافات اور سیاسی دشمنی یہاں عام ہے ہندو یوا واہنی کے نعروں کے ساتھ یہ بھگوا شاطر گروہ بند افراد جب چاہیں جسکو چاہیں کہیں بھی روک لیتے ہیں انکے لئے کوئی قانون نہی ہے یہ بیقصور افراد کو کہیں بھی سرراہ زرد کوب کرتے ہوئے مویشی اور مال واسباب لوٹ لیتے ہیں انکو برا نہی کہا جاتاہے آخر یہ کیسا دستور ہے جو بھاجپائی سرکاریں رائج کرنے پر بضد ہیں!سوشل رہبر دلت مسلم اتحاد کے علمبردار احسان الحق ملک نے آج لکھنؤ میں پریس کو بتایا کہ ملک کا دلت ، مسلم پچھڑا اور پسماندہ عوام بیحد پریشان اور تنگ حال ہے اترپردیش کی یوگی سرکار کے یہ احکام جاری ہوجانیکے بعد کہ قانون سے کھیلنے والوں پر سختی کیجائے اسکے باوجود یہاں درجن بھر سے زائد اضلاع میں غنڈہ گردی عام ہے پچھلے دنوں ویسٹ یوپی کے سرساوہ تھانہ میں تعینات ایک داروغہ پر بھی( تھانہ چلکانہ کے گاؤں دم جھیڑی ساکن مقتول حافظ عثمان ) کے بہنوئی سلیمان کیساتھ مارپیٹ اور پستول کا ہتھا سرپر مارنیکا سنگین معاملہ سامنے آیاہے اس معاملہ میں گزشتہ روز بیس و بائیس سالہ چار شاطر نوجوانوں نے حافظ عثمان اور ارشد کو اٹھالیا اور اسلحہ کی نوک پر دونوں کو باند لیا پھر دونوں کی پٹائی شروع کردی جسمیں نوجوانوں کی جانب سے بری طرح کی گئی پٹائی سے حافظ عثمان نے دم توڑ دیا جبکہ ارشد بری طرح سے زخمی حالت میں گاؤں والوں کو کھیت میں بندھا ملا اسکی اطلاع پر سرساوہ پولیس موقع پر پہنچی اور نوجونوں کو اٹھواکر تھانہ لے آئی جہاں اطلاع ملنے پر عثمان کے گھروالے تھانہ پہنچے اور داروغہ عثمان کو دیکھنے کی گزارش کی اس پر تھانہ کے داروغہ نے مقتول عثمان کے بہنوئیسلیمان کیساتھ مارپیٹ کی اور پستول کا ہتھا سلیمان کے سرپر مارا اس حرکت پر لوگوں نے پولیس کیخلاف ہنگامہ کیا مگر پولیس نے حافظ عثمان سے کسی کو بھی ملنے نہ دیا دونوں کو سول اسپتال لایا گیا جہاں معالجوں نے حافظ عثمان کو مرا ہوا بتایا اس پر گھروالوں نے اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں گھنٹہ بھر خوب ہنگامہ مچایا مگر کوئی بھی اعلیٰ افسر ان لوگوں کی بات سننے کیلئے راضی نہ ہوا لوگوں کا کہنا تھا کہ بدمعاشوں کی پٹائی کے بعد بھی عثمان کی سانسیں چل رہی تھی پولیس نے زخمیوں سے گھر والوں کو ملنے ہی نہی دیا بلکہ جب عثمان مرگیا تب اسپتال لایاگیا اس معاملہ کو بھی اب دبایا جارہاہے اصل شاطر قاتل ابھی تک فرار ہیں جبکہ مقتول کے بہنوئی کیساتھ مارپیٹ کرنیوالے داروغہ کیخلاف بھی ابھی تک کوئی ایکشن نہی لیا گیا ہے! بہوجن سماج پارٹی، سماج وادی پارٹی اور کانگریس کے لیڈران نے بھی پولیس کی مندرجہ حرکات و بیہودگی کو قابل مذمت قرار دیا اور مظلومین کیساتھ انصاف کئے جانیکی مانگ بار بار کی ہے مگر آج تک متاثرین کو انصاف نہی مل سکا! سوشل رہبر اور دلت مسلم اتحاد کے علمبردار احسان الحق ملک نے آج لکھنؤ میں پریس کو بتایا کہ ملک کا دلت ، مسلم پچھڑا اور پسماندہ عوام دل کی گہرائیوں سے جمہوریت پرست اور عدلیہ کے آزادانہ کردار کا مظبوط ترین حمایتی ہے پچھڑا سماج مہاسبھاکے قومی سربراہ اے ایچ ملک نے کہاکہ مرکزی سرکار اور ریاستی سرکاریں پری پلان ہجومی تشددکے معاملات میں قابل قدر عدلیہ سپریم کورٹ کے احکامات کی پاسداری کیلئے بھی راضی نہی ہیں آج بھی ہجومی تشدد لگاتار جاری ہے آپنیکہاہیکہ اندنوں سچ کہنے پر شفاف نظریات کے حامل سینئر افسران اور ججوں کی مشکلات میں لگاتار اضافہ ہوتاجارہاہے یہاں آئین اور جمہوریت خطرے میں ہے ملک کے حق پسند عوام و افسران کی بڑھتی ہوئی تکلیف پر ملک کا امن پسند عوام کبھی چپ نہی رہیگا ،سوشل رہبراحسان ملک نے کہاکہ پریس، پولیس اورانتظامیہ پر اپنی پکڑ بناکر آجکل بھاجپا سرکاریں عدلیہ پر روب غالب کرنیپربضد ہیں مگر ملک کے شہری یہ سازش کبھی کامیاب نہی ہونے دیں گے ہم جمہوریت کا قتل نہی ہونے دیں گے!
قابل ذکر ہیکہ علیگڑھ ، ہاپور، بلند شہر، کھتولی، میرٹھ، نوئیڈا اور رام پور میں مسلم افراد کیساتھ کچھ پولیس ملازمین کا رویہ وحشیانہ دیکھا جا رہاہے فرضی پولیس مقابلوں میں مسلہم نوجوانوں کو جان بوجھ کر مارا جارہاہے شاملی اور علیگڑھ کی تازہ وارداتیں سبھی کے سامنے ہیں سہارنپور میں پولیس ملازمین کے ذریعہ گزشتہ دنوں تھانہ مرزاپورکے بھراوڑ گاؤں کے دومسلم نوجوانوں پر جس بری طرح سے تھرڈ ڈگری کا استعمال کیا اسکو جس قدر برا کہا جائے وہ کم ہی ہوگا اس حرکت کیخلاف کسان یونین کئی دن سے لگاتار مرزاپور تھانہ کی ہٹلر شاہی کیخلاف مظاہرے کرنے پر مجبور ہے کسان لیڈران کا کہناہے کہ مرزاپور کے تھانہ انچارج، داروغہ اور تینوں سپاہیوں کے خلاف مقدمہ لکھاجائے اور انکو معطل کیا جائے کیونکہ تھانہ مرزاپور پولیس اسٹاف نے مسلم نوجوانوں کیخلاف جس تھڑڈ ڈگری کا استعمال کیا ہے وہ کسی بھی صورت قابل معافی نہی ہے کسان یونین کا الزام ہیکہ سینئر افسران پولیس کا ظلم و جبرظاہر ہوجانیکے بعد بھی انٖصاف کرنیکو راضی نہی ہیں!دوسری دردناک واردات گزشتہ عرصہ کے دوران درجن بھر پولیس زیادتی کی دو وارداتیں سامنے آچکی ہیں تھانہ رام پور کے تحت مقامی دہلی روڈ واقع گاؤں چنیٹی گاڑہ کے رہنے والے محمد یعقوب کے بیٹے جنید کو گاڑی نمبر ۱۰۰ پر سوار پولیس ملازمین کے ذریعہ حملہ آور ہونیکا معاملہ ابھی سرد بھی نہی ہوا تھا کہ پولیس اسٹاف کے ذریعہ گزشتہ دنوں تھانہ مرزاپورکے بھراوڑ گاؤں کے دومسلم نوجوانوں فیروز اور شوقین کوگھروں سے اٹھاکر پہلے تھانہ لاکر بری طرح سے مارا پیٹا اسکے بعد حوالات میں بند کر دینیکا معاملہ بھی سامنے آرہاہے پولیس کی زیادتی کے باعث دونوں نوجوانوں کے منھ اور پیٹھ پر کافی چوٹیں نظر آئی گاؤں کے افراد کو جب شوقین اور فیروز کی بلاوجہ گرفتاری کی خبر ملی تو درجنوں پردھان اور بھارتیہ کسان یونین کے لیڈران موقع پر پہنچے اور تھانہ کا گھیراؤ کیا گیا مگر اس شکایت پر کچھ بھی توجہ نہی دی گئی!