نمازکے لئے اسلام میں مسجد ضروری ہےکہ نہیں ہے یہ فیصلہ کرنے کی ہمارے سیکولر عدالتی ڈھانچہ میں نہ تو صلاحیت ہے اور نہ ہی عدالت و حکومت آئین کی روسے کسی مذہب کے خالص مذہبی مسائل میں دخل دینے کی مجاز ہیں …. مولانا عبدالرحمن عابد، اسلامک اسکالر

*نمازکے لئے اسلام میں مسجد ضروری ہےکہ نہیں ہے یہ فیصلہ کرنے کی ہمارے سیکولر عدالتی ڈھانچہ میں نہ تو صلاحیت ہے اور نہ ہی عدالت و حکومت آئین کی روسے کسی مذہب کے خالص مذہبی مسائل میں دخل دینے کی مجاز ہیں ، ویسے بھی یہ کہنا کہ ،، مسجد اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے ،، مذہبی نقطۂ نظر سے صد فیصد غلط ھے*۔۔

مولانا عبدالرحمن عابد، اسلامک اسکالر

———

اس لئے اس فیصلے میں خیر مقدم کرنے والی کوئی بات نہیں ہے ، جبکہ اسلامی شرعی مسئلہ کی غلط توضیح کرکے عدالت کی مہر لگاکر شریعت میں مداخلت اور مستقبل میں مسلمانوں کےلئے مصیبتیں پیدا کرنے کی سیدھی راہ کھولی گئی ہے ۔*

*اس فیصلے کی بنیاد پر مستقبل میں ملک بھر میں مساجد کی تعمیر و بقا پر سوال کھڑے کئے جائیں گے ، یہ بات صاف ہے کہ ملک کے ھندو برادران میں بہت تیزرفتاری سے تنگ نظری کی وبا پھیل رہی ہے ، آج ھندوؤں کا وہی گروہ اقتدار اور سماج میں طاقتور ھے جو قدم قدم پر مسلمانوں کو اذیت دینے میں سکون محسوس کرتاہے ، اس طبقے میں خاصی تعداد ان لوگوں کی ہے جو ظلم و جہالت کو ھندو دھرم کی سیوا اور مہان پنیہ ( ثواب ) کا کام سمجھتے ہیں ۔*

*نماز کےلئے اسلام میں مسجد ضروری نہیں ہے کہنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے میں غنیمت بات یہ ہیکہ بابری مسجد اراضی کے مقدمہ کو ملکیت کا کیس قرار دیتے ہوئے اسی بنیاد پر شنوائی کا بھروسہ دلایا ہے ، دیکھنا ہوگا کہ عدالت عظمیٰ اپنے اس قول پر کتنی کھری ثابت ہوتی ہے ؟ یا پھر ماضی کی طرح مسجد کے آثار مٹانے والوں کی راہوں کو آسان بنانے کا ہی کام کرے گی ، جیساکہ ماضی میں ، 6/ دسمبر 1992 کی مشروط کارسیوا کی اجازت دیکر ایودھیا میں سپریم کورٹ کا مشاہد تعینات کرکے مسجد کی حفاظت کا بھروسہ دلاکر نہ صرف مسجد شہید کرنے دی گئی بلکہ چالیس گھنٹوں سے زائد تک مسجد کی جگہ پر ایک ناجائز عارضی اسٹریکچر تعمیر کرکے دوبارہ اس میں مورتیاں رکھنے کی کھلے چھوٹ دی گئی ، اگر عدالت ایماندار ہے تو پہلے وہاں سے اس ناجائز اسٹریکچر کو ہٹواکر مسجد اسی طرح بحال کرائی جائے جیساکہ چھ دسمبر 1992 تک وہاں مسجد کی عمارت قائم تھی ، ۔۔۔*

*یاد کیجئے چھ دسمبر انیس سو بانوے کو یوپی کے ایودھیا میں قیامت صغریٰ کے اس منظر کے سولہ دن بعد الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم سے ہی اس اسٹریکچر میں پوجاپاٹ کا راستہ صاف کردیا گیا تھا ،۔۔*

*غور کیجئے سنہ 1949 عیسوی کی سرد رات میں مسجد کے اندر مورتیاں رکھنے کے بعد مسلمانوں کو نماز ادا کرنے سے روک کر مسجد پر تالا لگانے ، انیس سو چھیاسی میں فیض آباد کی عدالت کے غیر قانونی یکطرفہ فیصلے کے ذریعے مسجد میں مورتیوں کی پوجا درشن کےلئے تالا کھولنے سے لیکر طاقت اور غنڈہ گردی کی بنیاد پر مسجد کی عمارت شہید کرکے وہاں ناجائز اسٹریکچر تعمیر کرنے پوجا پاٹ کرانے کےلئے کھولنے کے سارے کاروبار میں حکومت اور عدالتوں کی نہ صرف جانبداری بلکہ مسلمانوں پر مظالم ڈھانے کے کھیل میں ان کی حصہ داری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ، یہ بات دیگر ہے بقول شاعر ۔۔۔۔*
*مصلحت اندیشیوں نے کردئیے مردہ ضمیر ،،*

*اگر ھندوستان کی عدالت اپنا کردار منصفانہ بنانا چاہتی ہے تو اسے انصاف پر مبنی فیصلے بھی کرنے ہوں گے ۔۔۔*

*انصاف کا قتل کرکے اکثریت کی بھاؤناؤں اور آستھا کی ہلڑ بازی کے دباؤ میں مظلوم اقلیتوں کے حقوق صلب کرکے اکثریت کی منمانیوں کو قانونی جواز فراہم کرکے عدالتوں کا اقبال کبھی بلند نہیں ہو سکتا ،۔۔۔۔*