سہارنپو ر۲۷؍ستمبر ( احمد رضا) جامعہ رحمت گھگرولی کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر مولانا عبد المالک مغیثی نے آج ایک ملاقات میں واضع کیاہے کہ دین اسلام ووٹ کی اہمیت پر تفصیل سے روشنی ڈالتاہے اور قوم کو ووٹ دینے کی ہدایت بھی کرتاہے اسلئے لازم ہے کہ قوم ووٹ بنوائے اور اپنے ووٹ کا سہی استعمال بھی لازمی طور سے کرے آجکل ووٹ بنائے جارہے ہیں ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنا ووٹ بنوائیں اور اپنے عزیز واقارب کوبھی ووٹ بنوانے کو تیار کریں اگر ہمنے ایسانہی کیا تویہ بڑے خسارہ کی بات ہوگی! جامعہ رحمت گھگرولی کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر مولانا عبد المالک مغیثی نیکہاکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں کسی امیدوار کو ووٹ د ینا شہادت (گواہی) سفارش اور وکالت ہے کہ آدمی جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہا ہے وہ اس بات کی شہادت وسفارش کررہا ہے کہ یہ شخص لوگوں کی خدمت کی قابلیت رکھتا ہے، امانت دار نمائندہ بننے کا اہل اور عوام کا وکیل ہے، قرآن مجید میں ہے: جو شخص اچھی سفارش کرے گا اس کو (اس کے ثواب میں) حصہ ملے گا اور جو بری سفارش کرے گا تو اس کو اس سفارش کی وجہ سے (گناہ کا) حصہ ملے گااچھی سفارش یہی ہے کہ انسان اس آدمی کی سفارش کرے (اسے ووٹ دے) جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی صحیح طور پر خدمت کرسکے اور بری سفارش یہ ہے کہ نااہل، فاسق اور ظالم آدمی کی سفارش کرکے (اس کو ووٹ دے کر) مخلوق خدا پر مسلط کردے!
جامعہ رحمت گھگرولی کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر مولانا عبد المالک مغیثی نے واضع کیاکہ ہندوستان کے موجودہ حالات میں مسلمانوں پر ووٹ دینا شرعاً واجب ہے، اس لئے ہر مسلمان کا شرعی اور اسلامی فریضہ ہے کہ وہ مفید او ر خیر خواہ شخص کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرے، قرآن کریم میں ہے: (۱) اے ایمان والو! انصاف کی گواہی دینے کے لئے کھڑے ہوجایا کرو اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں انصاف کے خلاف کرنے پر آمادہ نہ کرے (تم ضرور ہر معاملہ میں) انصاف کیا کرو (المائدہ:۸) (۲)تم اللہ تعالیٰ کیلئے سچی گواہی دو۔ (سورہ طلاق:۲) (۳)تم گواہی کو مت چھپاؤ۔ (البقرہ:۲۸۳، جواہرالفقہ ۲/۲۹۳) مولانا نیکہاکہ الیکشن کا امیدوار دوچیزوں کو دعویٰ کرتا ہے: (۱)اس کام کی قابلیت کا جس کا وہ امید وار ہے، (۲)دیانت وامانت داری سے اس کام کو انجام دینے کا۔اگر وہ امیدوار اس دعویٰ میں سچا ہے تو اس کا کھڑا ہونا درست ہے اور جس امیدوار میں یہ دونوں باتیں ہوں اس کو ووٹ دینا جائز بلکہ ایک فریضۂ شرعی ہے۔ (جواہر الفقہ)انہیں دوچیزوں کی تفصیل قرآن واحادیث کے مطابق یہ ہے کہ: (۱)جو امیدوار اہل اسلام کی مذہبی، معاشرتی، سیاسی ترجمانی اور نمائندگی کرسکے، (۲)بستی یا حلقہ پر خرچ کرنے کے لئے جو رقم حاصل ہو اس کو اسی جگہ خرچ کرے، جس مقصد کے لئے وہ رقم آئی ہے، (۳)سچ بولے، جھوٹ نہ بولے، (۴)جھوٹے دعوے نہ کرے، جو وعدہ کرے اسے پورا کرے، (۵)رشوت نہ لے اور نہ دے، (۶)حق بات کہنے اور انصاف کرنے میں مذہب یا برادری یا دوست اور دشمن کا خیال نہ کرے، (۷)مظلوم اور ضرورت مندوں کی مدد کرے، خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم، برادر ہو یا غیر برادر، دوست ہو یا دشمن، (۸)ضرورت مندوں اور پریشان حال لوگوں کی خبر گیری کرے جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کیا کرتے تھے، (۹)لکھنا پڑھنا اور حساب لگانا بھی جانتا ہو، (۱۰)کسی کی بے ادبی اور بے عزتی نہ کرے (کسی کو ذلیل نہ کرے) (۱۱)ہر ایک شخص کا حسبِ حیثیت ادب واحترام کرے، (۱۲)بستی میں فتنہ اور فساد نہ کرے اور نہ کرنے دے، امن وامان اور شانتی قائم رکھے،(۱۳)کسی کے مال اور زمین جائداد پر ناحق قبضہ نہ کرے اور نہ کرنے دے (۱۴)اچھے کاموں کی دعوت دے اور برے کاموں سے لوگوں کو روکے، (۱۵)کسی کی ناحق طرف داری نہ کرے (۱۶)دشمن کو بھی ناحق نہ ستائے بلکہ نرمی کا برتاؤ کرے (۱۷)بستی کی تمام ضروریات، صفائی وغیرہ کا پوری توجہ کے ساتھ انتظام کرے (۱۸) ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے! مولانا نے کلام اللہ کے حوالہ سے بیان کیاکہ اچھے اور قابل آدمی کو ووٹ دینا ثواب عظیم بلکہ ایک فریضۂ شرعی ہے اور غلط آدمی کو ووٹ دینا گناہِ عظیم ہے۔ (معارف القرآن ج۲، جواہر الفقہ ۲/۲۹۳) جو امیدوار ملک وقوم وملت کے لئے مفید ہے تو ہر ووٹر کا فرض اور اس بہتر اور مفید تر امید وار کو ووٹ دینا لازم ہے۔ (کفایت المفتی ۹/۳۵۳،۳۵۵) علماء کرام نے لکھا ہے کہ اگر کسی حلقہ میں کوئی امیدوار قابل، امانت دار اور لوگوں کا ہمدرد اور فائدہ مند نظر نہ آتا ہو ہر ایک میں کچھ نہ کچھ کمی نظر آرہی ہو تو پھر یہ معلومات کرو کہ کس امیدوار میں زیادہ قابلیت ہے، کس میں لوگوں کی ہمدردی اور بہتری ہے اور جس کے اندر یہ چیزیں زیادہ معلوم ہوں اسے یا دوسرے نااہل امیدواروں کے مقابلہ میں جس امیدوار کے اندر تھوڑی سی بھی قابلیت یا لوگوں کی ہمدردی دیکھو اسی امیدوار کو ووٹ دیدینا چاہئے۔