گذشتہ کئی دنوں سے اقلیتی اداروں بالخصوص اردو میڈیم کے اساتذہ اور اراکین انتظامیہ کے درمیان ایک موضوع جس پر زور و شور سے بحث جاری ہے وہ ہائی کورٹ کے ایک حکمنامہ کی بنیاد پر ریاستی حکومت کا ۲۴؍ اگست ۲۰۱۸ ء کا وہ حکمنامہ (جی آر) ہے جس کے مطابق تمام اساتذہ جن کی تقرری ۱۳؍فروری ۲۰۱۳ ء کے بعد ہوئی ہے انھیں ٹیچرس اہلیتی امتحان (ٹی ای ٹی) کامیاب کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ٹی ای ٹی کے موضوع پر دو طرح سے بات کی جاسکتی ہے پہلی یہ کہ جب اساتذہ کی تقرری کا ایک پیمانہ پہلے سے موجود ہے یعنی پرائمری سطح پر گریجویٹ ڈی ایڈ، ہائی اسکو ل سطح پر گریجویٹ بی ایڈ اور جونیر کالج سطح پر پوسٹ گریجویٹ بی ایڈ کامیاب ہونا لازمی ہے تو پھر اس کے لیے علحدہ سے ٹی ای ٹی یا پھر مرکزی سطح پر سی ٹی ای ٹی (سینٹرل ٹیچرس اہلیتی ٹیسٹ ) کو لازمی کیوں قرار دیا جارہا ہے؟
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ٹی ای ٹی(ٹیچرس اہلیتی ٹیسٹ) کے تناظر میں اس حکمنامہ سے قبل صرف نجی امداد یافتہ اقلیتی اداروں کو ہی مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا اب انھیں بھی اس میں شامل کرلیا گیا ہے۔ یعنی اب نجی امداد یافتہ اقلیتی اداروں میں بھی اساتذہ کی تقرری کے لیے ٹی ای ٹی کامیاب ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے نجی اداروں کے اراکین انتظامیہ اور اساتذہ اس پر احتجاج کررہے ہیں ۔ خبروں سے ہمیں معلوم ہوا کہ مہاراشٹر کے اہم شہروں اورنگ آباد ، پونہ و دیگر علاقوں میں اس سے متعلق احتجاجی جلسے بھی منعقد کیے گئے اور حکومت کے اس قدم کو رائٹ ٹو ایجوکیشن کی پالیسیوں کے مطابق متعصبانہ اور اقلیت مخالف قرار دیا۔ اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ٹی ای ٹی اساتذہ کی اہلیت کا پیمانہ مان لیا جائے تو گذشتہ کئی برسوں کے نتائج بالخصوص اردو میڈیم کے اساتذہ کے نتائج انتہائی مایوس کن ہیں۔ امتحانات میں پرچوں کی پرنٹنگ ، ٹائپ سیٹنگ اور غلطیوں کو بنیاد بنا کر ہم ہر سال ناکامی کا رونا روتے ہیں لیکن جو اردو اساتذہ اس میں کامیاب ہوئے ہیں ان کی کامیابی ہمارے دیگر اساتذہ کے لیے مشعلِ راہ کیوں نہیں بنتی ؟ اگر ٹی ای ٹی کی بنیاد پر مراٹھی میڈیم اور دیگر اکثریتی اداروں میں قابل اساتذہ کا تقرر کیا جارہا ہے تو ہمارے اساتذہ اپنی قابلیت کا لوہا منوانے پر کیوں تیار نہیں ہیں ؟ ہم حکومت کی اس پالیسی کو اقلیتی اداروں کے خلاف کیوں قرار دے رہے ہیں جبکہ ہمارے نجی امداد یافتہ اسکولوں میں اساتذہ کی تقرری کے طریق�ۂ کار سے ہم بخوبی واقف ہیں۔ ہم اساتذہ ، طلبہ کے جلسوں میں تو انھیں یہ ہدایت دیتے ہوئے نہیں تھکتے کہ محنت کیجیے اعلیٰ سطح پر کوئی تعصب نہیں ہوتا اور محنت سے آپ اپنی قابلیت کا لوہا منوا سکتے ہیں لیکن جب ہمارا موقع آیا تو ہم یہ رونا شروع کردیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ تعصب ہورہا ہے۔ صرف ایک بات سوچیے کیا ہمارے طلبہ ، ہماری قوم اس بات کی متقاضی نہیں ہے کہ انھیں قابل اساتذہ میسر آئیں؟ کیا ہمارے اداروں کو قابل اساتذہ کی ضرورت نہیں ہے ؟
مومن فہیم احمد عبدالباری
بھیونڈی
9970809093