جنسی بے راہروی اور قانونی تحفظ ۔۔۔ آگے آگے دیکھیے ہوتاہے کیا ۔۔۔ تحریر : محمد شاہدالناصری الحنفی ۔مدیرماہنامہ مکہ میگزین ممبئ
بالآخروہی ہواجس کادھچکابرسوں پہلے سے لگاہواتھا کہ جنسی انارکی وبے راہروی زن ورجال کو قانونی تحفظ فراہم کرکے ہندوستان کی گنگا جمنی پاکیزہ تہذیب کو داغدارہی نہیں بلکہ عالم میں رسواکیاجائے گا ۔ اکبرمرحوم نے۔سچ کہاتھا کہ
ہم سمجھتے کہ لائیگی فراغت تعلیم ۔
کیاخبرتھی کہ چلاآئیگا الحادبھی ساتھ ۔
سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کے پینل نے اغلام کو طرفین کی رضامندی سے جواز کی قانونی شکل دیتے ہوئے اسے انسانوں کی آزادی سے تعبیرکیاہے اس آزادی پرانسانیت جس قدرماتم کرے کم ہے۔ پہلے ہی سے کیاکیابرائیاں نہ سماج میں پنپ رہیں تھیں کہ بہت بڑی سنگین برائ کی کھلے عام نجس لوگوں کواجازت دے دی گئ ۔ کیا یہ فیصلہ انسانوں کی ضمیرپرزبردست طمانچہ نہیں ہے کیا یہ فیصلہ رب العالمین کے۔بنائے ہوئے قانون سے متصادم نہیں ہے۔ کیایہ فیصلہ نسلوں کو اورملکوں کوتباہ وبربادکرنے والانہیں ہے۔ کیا فیصلہ سنانے والے معزز اصحاب تحکیم نے اس پرغورنہیں کیا کہ ملک میں لڑکیوں کاتناسب کم ہونے کے باوجودبھی بن بیاہی لڑکیوں کی تعدادزیادہ ہے وہ کسی لڑکے۔کودولہا بنانے کے انتظارمیں بڑھاپے کی دہلیز تک پہونچ چکیں ہیں ۔ کیا ان پریہ ستم نہیں ہے کہ اب ان کا انتظار مزیدان کورنج وکرب میں مبتلاء کردے۔گا ۔
تمام ادیان ومذاہب کی تعلیم میں یہ ناپسندیدہ عمل ہے۔اورانسانیت کو صفحئہ ہستی سے نیست ونابودکردینے والا گھناؤناعمل ہے۔ آج بھی دنیا میں وہ نشانات باقی ہیں جہاں اغلام باز اورجنسی بے راہ روی کرنے والے لوگ موجودتھے۔ رب العالمین نے ان لوگوں پرزمین کوپلٹ دیا ان کوزندہ درگورکردیا ۔ کیا ہمارے وطن عزیز کوبھی اس گھناؤنافعل میں لوگوں کو مشغول کرواکر
زمین کوپلٹ واناچاہتے ہیں چندلوگ ۔
یہ توشکرہے کہ آرایس ایس نے بھی دیگرمسلم وغیرمسلم جماعتوں کے ساتھ مل کر اس جنسی بے راہ روی پراپنی ناپسندیدگی کااظہارکیاہے ۔
لیکن حیرت واستعجاب کی انتہا اس وقت ختم ہوگئ جب محسن رضا شیعہ اوررویش کمارنے اس تناظرمیں بالخصوص مدارس اسلامیہ اورعلماء کومتہم کرنے کی ناپاک سازش کااظہارکیا ۔ جبکہ اس فیصلہ سے قبل مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک ممبرنے بھی مدارس کو جنسی مشاقی میں ملوث کرنے کی ناپاک جسارت کی تھی جس پر اردو ۔کے روزناموں میں جناب کی بڑی مذمت کی تھی تھی جس کے نتیجے میں حضرت مفکراسلام صاحب کوان کی صفائ دینی پڑی تھی ۔
بہرحال کسی کے الزام لگانے سے کچھ ہوتانہیں ہے مدارس کی انسانی خدمات کی ایک بہت بڑی اوپرانی تاریخ ہے جو چاند سورج کی روشنی کی طرح تابناک ہے۔ مگرہم یہاں پریہ کہے بغیرنہیں رہ سکتے کہ اہل مدارس خطرات کااداراک فرمائیں اور اخلاقی تربیت کاانتظام پہلے سے دوچند کرلیں ۔ تربیت کے باب میں فی زمانہ کیمرہ بہت مفیداورمؤثرثابت ہورہاہے۔ دارالاقامہ کے ہر کمرے میں جہاں طلبہ کاقیام وطعام اورنیام ہو وہاں لازما کیمرہ نصب کریں تاکہ تہمت سے بچاجاسکے اورطلبہ کی اخلاقی تربیت میں کوئ کمی نہ رہ جائے۔
علماء واطباء اورسماجی مصلحین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اہل قانون اورججز حضرات سے اس فیصلہ کے تناظرمیں ملاقات کریں اوران پریہ باورکرانے کی کوشش کریں کہ اس فیصلے پرنظرثانی کرتے ہوئے گنگاجمنی تہذیب کی حفاظت پرمبنی سابق قانون کہ ہم جنسی اورجنسی بے راہروی جرم اورقابل تعزیرہے ۔کو حسب سابق قانون بناکررکھاجائے ۔