مردِ غیور *مولانا مظہر عالم قاسمیؒ* ⑴ ✏ فضیل احمد ناصری

3 ستمبر 2018 کو ایک ایسا عالم دین ہمارے درمیان سے اٹھ گیا، جس کی پوری زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت تھی۔ یہ حضرت مولانا مظہر عالم صاحب کی ذاتِ گرامی تھی۔ باغ و بہار شخصیت ۔بہترین انسان۔ بہجت و نہضت کا روشن عنوان۔ بہار و بہارستان کا حسین استعارہ۔ میں انہیں 1999 سے جانتا تھا۔ ان کے ساتھ چار سالہ رفاقت بھی رہی۔ ان کی شفقتوں اور عنایتوں سے بھی محظوظ ہونے کے مواقع خوب خوب ملے۔

*خاندانی پس منظر*

مولانا کی شخصیت پر اپنے تاثرات ظاہر کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ان کے خاندانی پس منظر پر مختصر روشنی ڈال دی جائے۔ مرحوم، بہار کے سیتامڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کا ایک گاؤں *بِرار* مولانا کا وطن تھا۔ والد کا نام مولانا عزیزالرحمن، جب کہ جد امجد کا اسم گرامی شیخ صمدانی تھا۔ کسی دور میں ان کا گاؤں جہالت کا مرکز اور اسلامیات سے یکسر نا آشنا تھا۔ یہاں کے سب سے پہلے عالم مرحوم کے بڑے چچا مفتی عبدالعزیز بہاریؒ تھے اور دوسرے خود ان کے والد مولانا عزیزالرحمن ۔ ان دونوں کے وطنی استاذ مولانا محمود عالم صاحبؒ تھے، جنہیں حضرت شیخ الہندؒ کی شاگردی کا شرف حاصل تھا۔ وہ برار کے نہیں تھے ۔ مولانا مظہر عالم صاحب کے عمِ محترم مفتی عبدالعزیز بہاریؒ اور والد مولانا عزیز الرحمنؓ مدرسہ امدادیہ دربھنگہ کے خوشہ چیں تھے۔ والد کی ساری تعلیم تو وہیں ہوئی، البتہ مفتی عبدالعزیز بہاریؒ نے مدرسہ امدادیہ دربھنگہ کے بعد دارالعلوم دیوبند کی آغوش سے بھی استفادہ کیا ۔ ان کے اساتذہ میں امام العصر علامہ انور شاہ کشمیریؒ نمایاں ترین ہیں۔ مفتی صاحبؒ ہی وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے دیوبند کا تعارف ممبئی میں کرایا اور علمائے دیوبند کے لیے راہیں ہموار کیں، ورنہ تو ایک وقت وہ بھی تھا کہ حضرت تھانویؒ سفرِ حج کے لیے ممبئی تشریف لے گئے اور بریلویوں کو معلوم ہوا تو ان کے تعاقب سے بھی نہ چوکے، بڑی مشکل سے ان کی جان بچ سکی۔1927 سے تادمِ آخر ممبئی میں رہے اور متعدد مدارس و مساجد اور تنظیمیں برپا کر کے سرزمینِ ممبئی ہمیشہ کے لیے تنگ کردی۔

مفتی صاحبؒ کے سارے کارناموں کا سہرا بلاشبہہ مدرسہ امدادیہ دربھنگہ کے سر جاتا ہے۔ یہاں جملہ معترضہ کے طور پر یہ بھی عرض ہے کہ مدرسہ امدادیہ حاجی امداداللہ مہاجر مکی کی طرف منسوب ہے، اس کے بانی میرے والدِ گرامی حضرت جمیل احمد ناصریؒ کے پردادا حضرت مولانا منور علی نستویؒ تھے۔ حضرت بانئ مرحوم حاجی امداداللہ کے خلیفۂ خاص اور ان کے خصوصی تربیت یافتہ تھے۔ یہ ادارہ کسی زمانے میں سرزمینِ بہار کا دارالعلوم تھا۔

*ولادتِ با سعادت*

مولانا مظہر عالم صاحبؒ کی ولادت ایسے ہی علمی گھرانے اور دینی ماحول میں ہوئی۔ سنِ پیدائش 1944 ہے۔ آپ اپنے والدین کی اولاد میں نمبر دو پر تھے۔ پہلے نمبر پر سرزمینِ ممبئی کی علمی شخصیت حضرت مولانا مفتی مظفر عالم صاحب زیدمجدہم ہیں، جب کہ تیسرے نمبر پر جناب منظر عالم۔ مولانا کو کوئی بہن نہیں تھی۔

*تعلیم و تربیت*

مرحوم بچپن سے ہی ممبئی میں رہے اور مکتب سے لے کر متوسطات تک کی ساری تعلیم دارالعلوم امدادیہ ممبئی سے پائی۔ یہ ادارہ 1949 میں مفتی عبدالعزیز بہاریؒ کے مکان پر 1949 میں ممبئی کے دوٹانکی علاقے میں قائم ہوا اور 1968 میں چونا بھٹی چلا گیا۔ مرحوم نے 1957 سے 1967 تک طالب علمی کا زمانہ امدادیہ میں گزارا۔ ابتدائی تین برس تکمیلِ حفظ میں لگے اور بقیہ ایام و شہور عربی تعلیم میں۔ یہاں اپنے چچا مفتی عبدالعزیز بہاریؒ سمیت متعدد اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا۔ اس ادارے کے بانی ان کے عمِ محترم مفتی عبدالعزیز بہاریؒ تھے، جو آگے چل کر مفتئ اعظم مہاراشٹر کے طور پر علمی حلقوں میں جانے گئے۔
امدادیہ سے نکلے تو دیوبند کی راہ لی۔ یہاں تین سال رہ کر علوم و فنون کے جبال سے کسبِ علم کیا۔ 1970 میں فراغت پائی۔ یہاں جب تک رہے اساتذہ کے منظورِ نظر رہے۔ مولانا عبدالاحد صاحب دیوبندیؒ سے بڑا لگاؤ تھا۔ وہ بھی مفتئ اعظم مہاراشٹر کا برادر زادہ ہونے کے سبب انہیں قریب رکھتے۔ اساتذہ میں حضرت مولانا فخرالدین مرادآبادیؒ اور فخر المحدثین حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیریؒ نمایاں ہیں۔

*دیوبند سے پھر ممبئی*

دارالعلوم سے فراغت پائی تو دین کی خدمت کے لیے ممبئی کا انتخاب کیا۔ یہاں باندرہ اسٹیشن سے متصل مغربی حصے میں ایک بڑی مسجد واقع ہے، یہیں امام ہو گئے۔ یہ مسجد بریلویوں کی تب بھی تھی، اب بھی ہے ۔ انتہائی حکمت اور فراستِ مومنانہ کے ساتھ اپنا فریضۂ امامت ادا کرتے رہے۔ اس دوران بہتوں کو بدعات سے توبہ کرایا۔ یہ سلسلہ کم و بیش دس برسوں تک چلا۔ یہ مسجد اب تو متشدد بریلویوں کے قبضے میں ہے اور اس تام جھام کے ساتھ کہ مسجد سے زیادہ درگاہ معلوم ہوتی ہے۔ یقین ہی نہیں ہوتا کہ اس کا امام کسی عہد میں دیوبندی بھی ہوا کرتا تھا۔

*دارالعلوم عزیزیہ میرا روڈ کا قیام*

مسجد میں امامت چل ہی رہی تھی کہ حضرت مفتی عبدالعزیز بہاریؒ کے متوسلِ خاص جناب الحاج غلام رسول صاحب سانتا کروز [ممبئی] کی معیت میں انہوں نے میرا روڈ میں دارالعلوم عزیزیہ کی بنیاد رکھ دی۔ یہ 1976 تھا۔ میرا روڈ کا علاقہ اس وقت وادئ غیر ذی زرع تھا۔ گم نام و بے نشان۔ دور دور تک سناٹا تھا۔ آبادی بس برائے نام تھی۔ مچھر تو آج بھی شترِ بے مہار ہیں، جس زمانے میں عزیزیہ قائم ہوا تھا، مچھروں کی یلغار سے وہاں کون جسم تھا جو چھلنی نہ تھا۔

بنائے دارالعلوم کے بعد بھی باندرہ میں ان کی امامت جاری تھی۔ ادھر ان کا اہتمام بھی چلنے لگا۔ حاجی غلام رسول صاحبؒ کے اصرار کے بعد باندرہ کی امامت چھوڑ کر میرا روڈ میں مستقل سکونت پذیر ہوگئے۔

دارالعلوم عزیزیہ قائم ہو گیا تو اس کو پروان چڑھانے میں انہوں نے اپنی پوری توانائی صرف کردی ۔ اس کی ترقی کے لیے سحر و شام مختلف علاقوں کے چکر لگائے۔ ان کی لگن، جذبۂ صادق اور خونِ جگر سے تعلیمی و تعمیری ہر دو شعبے شہرت کے بامِ عروج پر پہونچے ۔ اچھے اساتذہ کا انتخاب و تقرر عزیزیہ کی جان تھا۔ دارالعلوم امدادیہ ممبئی کے بعد پوری ممبئی میں یہی ایک مدرسہ تھا جس کی نیک نامی کے چرچے ملک بھر میں ہوئے۔ طلبہ کا رجوع تیزی سے بڑھا۔

مدرسے کا قیام علاقۂ میرا روڈ کے لیے فالِ نیک ثابت ہوا۔ آبادی تیزی سے بڑھنے لگی۔ صحرا بہت جلد ایک بڑے شہر میں تبدیل ہو گیا۔ اونچی اونچی بلڈنگیں، فلک بوس عمارات اور سرکاری سہولیات میں کسی شہر سے کم نہیں۔ آج کا میرا روڈ تو مہنگے ترین شہروں میں شامل ہو گیا ہے۔ میرے زمانۂ قیام میں بھی اس کی ویرانی کسی نہ کسی درجے قائم تھی۔

*علمی لیاقتیں*

مرحوم علمی لیاقتوں سے مالا مال تھے۔ ذوقِ مطالعہ کافی اچھا تھا۔ عزیزیہ میں کتابیں بھی پڑھاتے تھے۔ وہ عمدہ قلم بھی رکھتے تھے۔ ان کی تحریر بڑی شگفتہ اور خط بہت صاف ہوتا تھا۔ خطابت کے تو گویا شہ سوار ہی تھے۔ ہر جمعہ ان کی تقریر بڑی پابندی سے ہوتی۔ سلاست و روانی کا پیکر۔ آب دار و تاب دار۔ عالمانہ اور پر وقار۔ لہجے میں شائستگی تھی۔ سبک خرامی بھی۔کھڑے کھڑے تقریر کرتے اور جوش و خروش سے معمور۔ زبان پر کامل گرفت تھی۔ قاری بھی تھے، جو کچھ بولتے، بہ لہجۂ تجوید بولتے۔ زبان پر ان کی مہارت اور خطابت میں ان کی دستگاہ نے انہیں پوری ممبئی کا نامور خطیب بنا دیا تھا۔

*تحریکی شخصیت*

مولانا تحریکی شخصیت کے حامل تھے۔ دوڑ دھوپ اور جفاکشی ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ دارالعلوم عزیزیہ کی ترقیات کے علاوہ ملی تنظیموں سے بھی انہیں گہرا لگاؤ تھا۔ آل انڈیا علما کونسل کے مؤقر رکن رہے۔ جمعیۃ علمائے ہند سے تو قدیم وابستگی تھی۔ ان کے چچا مفتی عبدالعزیز بہاریؒ جمعیۃ علمائے مہاراشٹر کے بانی بھی تھے، قدرتی طور پر انہیں بھی جمعیۃ سے مکمل لگاؤ رہا۔ علاقۂ میرا بھائندر کی جمعیۃ کے تا عمر صدر بھی رہے ۔ وہ قاضئ شہر بھی تھے۔ جو بھی تحریک کھڑی ہوتی، یہ اس میں تن من سے شریک۔ کارکنان کے حوصلے بڑھاتے۔ مفید مشوروں سے نوازتے ۔ موقع بہ موقع ان کی خبر گیری بھی کرتے۔

*وقار و حلم کا بہترین نمونہ*

مولانا سے میری پہلی ملاقات 1999 میں ہوئی۔ میں نیا نیا فارغ التحصیل تھا۔ مجھے جگہ کی تلاش تھی۔ محترم مولانا وصی احمد قاسمی زیدمجدہم اس وقت باندرے کی نوپاڑہ جامع مسجد کے امام و خطیب تھے۔ بڑے جہاں دیدہ اور سرد و گرم چشیدہ۔ وہ میرے گاؤں بلہا [کمتول، مدھوبنی] کے ہیں۔ بہار آئے ہوئے تھے۔ میرے والدِ مرحوم مولانا جمیل احمد ناصری نے ان سے میرا ذکر کر دیا۔ مولانا اپنے ساتھ ممبئی لے گئے۔ یہ جولائی کا مہینہ تھا۔ میں تو بالکل نو وارد تھا۔ یہاں کی دوڑتی بھاگتی زندگی میرے لیے عجیب تھی۔ ہر وقت شور و غوغا۔ رات کے سناٹے بھی انہیں غوغاؤں میں گم۔ میرا دل بھی نہیں لگ رہا تھا۔ جگہ کی تلاش میرے بس میں بھی نہیں تھی۔ مولانا وصی صاحب نے ہی پوری تگ و دو کی۔ ایک دن انہوں نے یہ کہہ کر مجھے میرا روڈ بھیج دیا کہ وہاں فلاں ادارے میں فلاں مولانا سے مل لیں۔ حسبِ ہدایت میں میرا روڈ گیا اور مولانا مظہر عالم صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی۔

**دارالعلوم عزیزیہ میں میرا تقرر**

مولانا سے پہلی ملاقات نے مجھے بہت متاثر کیا اور یہ تاثر وقت کے ساتھ مزید گہراتا گیا۔ علیک سلیک اور ابتدائی تعارف کے بعد مولانا نے مجھ سے کہا کہ یوں تو یہاں جگہ خالی نہیں ہے۔ البتہ دینیات کے ایک استاذ قاری مستقیم صاحب ایک ماہ کے لیے وطن کے سفر پر ہیں۔ آپ چاہیں تو اس درجے میں خدمت انجام دے دیں۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ میں نے ہامی بھرلی۔ ایک ماہ کا عرصہ جھٹکے میں نکل گیا۔ استاذ آچکے تھے۔ میں بجھا بجھا پھر ان سے ملا اور کسی مناسب مدرسے کی رہ نمائی کی درخواست کی۔ کہنے لگے: اب آپ کو کہیں نہیں جانا۔ آپ یہیں رہیں۔ میں رک گیا۔

*عربی درجات کی طرف پہلا قدم*

ایک دن اچانک مجھے دفتر میں بلایا۔ دفتر اس وقت مسجد کے دائیں حصے میں تھا۔ ایک گلی نما کمرے کی شکل میں۔ تین چار طلبہ قرآن لیے بیٹھے تھے۔ انہوں نے میرے ہاتھ میں قرآن تھما دیا اور کہا کہ یہ طلبہ ہیں، انہیں ابھی پڑھائیے۔ دیکھا تو سورۂ والنجم تھی۔ مجھے بچپن کا ترجمہ یاد تھا۔ وہی اس وقت کام آگیا۔ چند آیات کا ترجمہ اور ان کی تفسیر جوں توں میں نے کردی۔ پھر فرمایا کہ اب آپ ہی انہیں پڑھائیں گے، چناں چہ کم و بیش سات دن اسی طرح سلسلہ چلا۔ پھر نورالایضاح بھی مجھ سے متعلق کر دی گئی۔

*عربی اسباق کی باقاعدہ مدرسی*

ابھی تک جو کچھ تھا، بس خانہ پری تھا۔ جگہ خالی نہیں تھی۔ جیسے تیسے وقت گزار رہا تھا۔ دل امید و بیم کے درمیان ہچکولے کھاتا ہوا۔ مستقبل کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا کہ اچانک ایک قدیم استاذ کا معاملہ بگڑ گیا۔ اساتذہ کی رہائش اس زمانے میں مولانا کے گھر کے قریب تھی۔ مدرسے کی اپنی بلڈنگ زیرِ تعمیر، مگر تکمیل کے قریب تھی۔ بلڈنگ تیار ہو گئی تو سارے اساتذہ کو یہاں بلا لیا گیا۔ میرے ساتھ دو دیگر اساتذہ کو دفترِ تعلیمات کے اوپر والے کمرے میں جگہ دی گئی۔ ایک طالب علم کو بھی ساتھ لگا دیا۔

یہ طالب علم غیر مسلم تھا۔ آسام کا تھا۔ ہم لوگوں سے عمر رسیده تھا۔ شیخ احمد علی باسکنڈیؒ خلیفہ حضرت شیخ الاسلامؒ کا مسترشدِ خاص تھا۔ ہمارے ہم حجرہ ایک مدرس کو یہ قطعی پسند نہیں آیا کہ ایک طالب علم اساتذہ کے کمرے میں کیوں کر رہ سکتا ہے؟ اس نے مہتمم صاحب سے عرض کیا، مگر اس کی نہیں چلی۔ اس نے دو ٹوک اور ترش لہجے میں کہا: اس کمرے سے اگر اسے نکالا نہ گیا تو میں مستعفی ہو جاؤں گا۔ مہتمم صاحب نے کہا: جیسی مرضی۔

وہ مولانا پورے جلال میں تھے۔ استعفا نامہ لکھا اور مہتمم صاحب کو پیش کر دیا۔ اگلے دن مہتمم صاحب نے سارے اساتذہ کو بلایا اور صورتِ حال رکھی۔ استعفا نامہ کیا تھا، گالی نامہ تھا۔ نہایت تلخ لہجے میں سخت و سست تبصرے۔ مہتمم صاحب نے اساتذہ سے پوچھا: استعفا نامے میں میرے خلاف تبصرے حق بجانب ہیں؟ اساتذہ پر ہو کا عالم تھا۔ ایک طویل اور معنیٰ خیز خاموشی۔ ایک تو ان کی رعب دار شخصیت، دوسرے پورے جلالی رنگ میں۔ خلاصہ یہ کہ انہیں اسی وقت نکال دیا۔ ایک ماہ مزید قیام کی ان کی درخواست بھی ان سنی کر دی گئی۔

وہ مولانا اس وقت ممبئی کے مضافات میں ہی ایک عدد مدرسے کے مہتمم ہیں۔ مولانا مظہر عالم سے جتنی شکایتیں وہ ہم سے کیا کرتے تھے، اہتمام کے بعد وہ سارے ممنوعات اب ان کے لیے شیرِ مادر بن چکے ہیں ۔ میں نے خود دیکھا اور بتانے والوں نے بتایا کہ ان کا ادارہ ‌‌” دارالعلوم آ‌‌وا گون” ہے ۔ اساتذہ ایام و شہور کی طرح تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

خیر، وہ نکال دیے گئے تو ان کی ساری کتابیں مجھ سے وابستہ کردی گئیں۔ یہ کتابیں عربی پنجم تک کی تھیں۔ میری امید سے بہت اونچی اور حوصلے سے بہت بالا۔ چار برسوں تک ان کی عنایات کا سلسلہ متواتر جاری رہا۔

*مولانا کا سراپا*

عزیزیہ میں میرا تقرر ہوا تو مولانا کو قریب سے دیکھنے کا بھر پور موقع ملا۔ بڑے وجیہ و رعب دار تھے۔ گٹھا ہوا جسم۔ کتابی چہرہ۔ کشیدہ قامت۔ کشادہ پیشانی۔ متوسط آنکھیں۔ دورانِ مطالعہ خوب صورت چشمہ بھی زیبِ چشم۔ سادہ پوش، مگر نستعلیق ۔ ہمیشہ جھک کر چلتے۔ گفتگو میں بلا کی صفائی تھی۔ مقفیٰ مسجع کلام کرنے کے عادی ۔ الفاظ منتخب اور بڑے مرصع ۔ رفتار میں وقار ۔ عموماً کرتے پائجامے میں۔ ٹوپی مخملی سیاہ، جسے عموماً نوشاہ پہنتے ہیں۔

*مجھ پر ان کی نوازشیں*

میں جب تک عزیزیہ میں رہا، ان کا منظورِ نظر رہا۔ ان کی غیر موجودگی میں جمعہ کی تقریریں مجھ سے بھی کرائی جاتیں۔
عملی میدان میں قدم زنی کے بعد قرطاس و قلم سے رشتہ یہیں قائم ہوا۔ میری تحریریں اخبارات میں چھپتیں۔ مضمون نگاری پر وہ میرا حوصلہ بڑھاتے۔ کچھ دن ایسا بھی ہوا کہ بعدِ نمازِ فجر دارالعلوم عزیزیہ کے ابتدائی احوال مجھے املا کراتے اور نظرثانی کے بعد مجھے دے دیتے۔ اس طرح عزیزیہ کی ابتدائی تاریخ مرتب ہو گئی۔ بعد میں اس کی ترتیب و تہذیب کا کام بھی مجھ سے لیا گیا، اب وہ مبیضہ ایک برس سے میرے پاس ہے۔ سابق مفتئ اعظم مہاراشٹر مفتی عبدالعزیز بہاریؒ کے کچھ حالات عزیزیہ میں میرے قیام کے دوران مجھے املا کرا چکے تھے۔ میری برطرفی کے بعد یہ سلسلہ موقوف ہو گیا۔ ادھر آخری برسوں میں اسی سلسلے کو آگے بڑھانا شروع کر دیا تھا۔ 35، 36 صفحات پر مضمون پھیل بھی گیا تھا، تاہم
خرابئ صحت کی بنا پر یہ سلسلہ ایک بار پھر رک گیا۔ اب ان کے یہ سارے مسودات میرے پاس ہیں۔ اللہ نے چاہا تو انہیں منظرِ عام پر ضرور لاؤں گا۔

چار سالہ تدریس کے بعد بعض حاسدوں کی کارستانی عزیزیہ سے میری برطرفی کا سبب بن گئی۔ مجھے اس کا بڑا قلق رہا اور اس وقت تک رہا جب تک معیاری ادارہ مجھے مل نہیں گیا۔ میں ان سے سخت نالاں بھی تھا اور ان کے سائے سے گریزاں۔ پھر وہ تلخی ایک سال کے بعد کافور ہو گئی ۔ ملاقاتوں اور محبتوں کا پھر نیا دور چلا۔ میں جب بھی ممبئی جاتا ان سے ملاقات کرتا۔

*اکابرِ دیوبند سے محبت*

انہیں اکابرِ دیوبند سے بڑی محبت تھی۔ وہ ممبئی میں روایاتِ اکابر کے امین تھے۔ موقع بہ موقع ان کے تذکرے سے اپنے اور سامعین کی دل کی انگیٹھی گرم رکھتے۔ کوئی نمایاں عالمِ دین ممبئی آتا تو انہیں دارالعلوم عزیزیہ ضرور مدعو کرتے۔ میرے زمانۂ تدریس میں جو بڑی شخصیات وہاں آئیں ان میں حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد پالن پوری مدظلہ بھی ہیں۔ ان کی مختصر تقریر بھی ہوئی تھی۔ انہیں خانوادۂ شیخ الاسلامؒ سے بھی خصوصی لگاؤ تھا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت مولانا اسعد مدنیؒ راجدھانی ایکسپریس سے ممبئی تشریف لائے تو چند اساتذہ کے ہمراہ وہ خود ممبئی سینٹرل ان کے خیرمقدم کے لیے گئے۔ اس قافلے میں میں بھی شریک تھا۔ پھر انہیں عزیزیہ میں مدعو کیا تو نہایت شان دار انداز میں۔ اس موقع پر مجھ سے منظوم سپاس نامہ بھی لکھوایا تھا، جو اجلاس میں پڑھا گیا۔ مولانا پالن حقانیؒ اور ملک کی کئی اہم شخصیات ان کی دعوت پر عزیزیہ جا چکی ہیں۔

اکابرِ دیوبند سے ان کی محبت کے مظاہرے میں نے بارہا دیکھے۔ حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحبؒ، فخرالمحدثین حضرت مولانا سید محمد انظرشاہ کشمیریؒ، حضرت مولانا عبدالاحد دیوبندیؒ کے تذکرے بڑے مزے سے کیا کرتے۔

[جاری]