فتوی پر پابندی کا معاملہ : سپریم کورٹ میں جمعیۃ علماء ہند کی عرضی داخل کسی کو اس کے مذہبی معاملات میں رہ نمائی حاصل کرنے سے روکنا سراسر بنیادی حقوق پر حملہ : مولانا محمود مدنی

نئی دہلی۔۴ستمبر۲۰۱۸ء
فتوی سے متعلق اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند نے آج سپریم کورٹ میں فوری اسٹے کی عرضی داخل کی ہے ۔تنظیم کی نمایندگی کرتے ہوئے مولانا محمود مدنی جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند نے اپنی عرضی کہا کہ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ دستو ر ہند کی دفعہ 26اور وشوا لوچن مدان کیس بنام حکومت ہند میں بذات خود سپریم کورٹ کے فیصلے سے متصادم ہے ۔عرضی میں استدلال کیا گیا ہے کہ دستور ہند کی دفعہ 26(B) میں ہر ایک کو اپنے مذہبی مسائل میں خود کے انتظام کا حق دیا گیا ہے،لہذا اسے کوئی بھی عدالت ختم نہیں کرسکتی ۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹ کا مذکورہ فیصلہ دستو رکی دفعہ 141سے بھی متصادم ہے جس کے تحت کسی بھی عدالت کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیصلے کا حق حاصل نہیں ہے ۔
جمعیۃ علماء ہند نے عدالت عظمی میں اس بات کی بھی شکایت کی کہ ہائی کورٹ نے لشکر پنچایت کے فرمان کو ’فتوی‘سمجھنے کی غلطی کی ہے اور اس سلسلے میں صرف ہندی کے ایک اخبار کو بنیاد بنا کر فیصلہ دے دیا گیا ۔حالاں کہ اخبار کے مطالعہ سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ وہ صرف پنچایتی فرمان ہے اور اس کا فتوی سے دور دور تک تعلق نہیں ہے ۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ فتوی کسی پنچایت سے نہیں بلکہ دارالافتاء یا کسی اہل مفتی کے ذریعہ ہی دیا جاتاہے اور اس کی حیثیت صرف پوچھنے والے کی شرعی مسئلہ پر مشورہ اور رہ نمائی ہے ، اس پر عمل کرنے کے لیے کسی کو مجبور نہیں کیا جاتاہے اور نہ ہی اس کی کوئی قانونی پوزیشن ہے ۔
جمعیۃ علماء ہند نے اس کے علاوہ بھی متعدد قوانین اور فیصلہ سے متعلق پس منظر کو پیش کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے فوری اسٹے کی درخواست کی ہے۔ عدالت میں تنظیم کی طرف سے سپریم کورٹ کے وکیل شکیل احمد سید، ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی ، ایڈوکیٹ عظمی جمیل، ایڈوکیٹ پرویز دباس نے عرضی دائر کی ۔
اس موقع پر مولانا محمود مدنی نے کہا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ انتہائی سنجیدگی کا طالب ہے،آپ کسی کو اس کے مذہبی معاملات میں رہ نمائی حاصل کرنے سے نہیں روک سکتے ۔یہ سراسر بنیادی حقوق پر حملہ ہے، اس لیے جمعیۃ علماء ہند نے فوری طور سے قدم اٹھاتے ہوئے عرضی داخل کی ہے۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ عدالت عظمی ہماری عرضی پر جلد فیصلہ کرے گی ۔