استاذالاساتذہ، منبع علم و معرفت،ملجا ٕ علما ٕ و فضلا ٕ،بانی مدارس و جامعات اور سرپرست مکاتب و معاھد حضرت مولانا قاری محمد مظھر عالم صاحب قاسمی علیہ الرحمة کا انتقال ممبٸی ہی نہیں پورے ملک کے لٸے غم و اندوہ کا باعث بنا ہے۔ اور پوری ملت اسلامیہ ہندیہ پر یہ حادثہ ٕ صاعقہ فاجعہ بن کر گرا ہے۔ حضرت کے چلے جانے سے ملت اسلامیہ میں جو خلا پیدا ہوا ہے ، ان کا نعم البدل مل پانا کم سے کم مستقبل قریب میں تو محال ہے۔
مورخہ 3/ستمبر 2018 بروز پیر تقریبا دو بجے دن میں ایک طویل علالت کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ان کی عمر تقریبا 75 سال تھی۔پس ماندگان میں ایک بیوہ چار بیٹیاں ہیں۔ایک لڑکے کا کچھ سالوں قبل ہی انتقال ہو گیا تھا۔
مولانا مرحوم و مغفور کے چچا اور سسر حضرت مولانا عبد العزیز بہاری رحمة اللہ علیہ مدرسہ امدادیہ چونا بھٹی محمد علی روڈ کے بانی مبانی تھے۔اپنے محترم چچا کے نام نامی ہی پر تقریبا 1980 کے آس پاس ممبٸ کے مضافاتی علاقے میرا روڈ میں دارالعلوم عزیزیہ کے نام سے ایک مدرسے کی بنیاد ڈالی جو ممبٸی کے لٸے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لٸے ایک مخصوص شناخت کے ساتھ شہرت پذیر ہوا۔ یہ ادارہ شروع سے ہی پورے ملک سے ممبٸی آنے والے علما ٕ و فضلا ٕ کا مرکز و ماوی بنا رہا ۔ عرصہ ٕ دراز تک حضرت اس کے مسند اہتمام پر فاٸز رہے۔
اس ادارے کے ذریعے ملت اسلامیہ کے بے شمار نونہالوں نے تعلیم و تربیت پانے کے بعد ملک کے بڑے اداروں سے فراغت حاصل کی جو سماج و معاشرے کے لٸے تعلیم و تربیت اور روشنی پھیلانے کا کام کر رہے ہیں۔
چچا اور بھتیجے کے ذریعے قاٸم کردہ مدارس پورے ممبٸی اور مضافات میں مکاتب و مراکز کے قیام کے لٸے مہمیز ثابت ہوٸے۔اور نٸے فارغ التحصیل علما و فضلا کے لٸے مشعل راہ بنے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ممبٸی اور مضافات کا کوٸی بھی خطہ مدارس و مکاتب سے خالی نہیں۔ہر گوشے گوشے میں تلاوت قران پاک کی صدا سناٸی دے رہی ہے ۔ظاہر بات ہے کہ اس سنت کو جاری کرنے کا پورا اجروثواب ان چچا بھتیجے کو ہی ملے گا۔
اس ادارے کے قیام کے بعد ممبٸی کے جس خطے میں بھی کوٸی دینی ادارہ وجود میں آیا حضرت کی سرپرستی اسے ضرور حاصل رہی۔مدارس و مکاتب کا کوٸی چھوٹا پروگرام بھی منعقد ہوتا تو حضرت ضرور تشریف لے جاتے۔یہ حضرت کی وسعت قلبی تھی کہ اس سمندر میں ساری ندیاں اور نہریں سما جاتی تھیں۔ان کی ضیافت اور چاٸے نوشی سے ہر کس و ناکس مستفید ہوتا۔ہر ایک سے خوش اخلاقی سے ملتے۔اپنے مرحوم چچا کا نام بڑے احترام سے لیتے۔ملک کے بڑے علما اور علمی شخصیتیں ان کے رابطے میں تھیں۔میرا روڈ کا علاقہ بھی جہاں کی سکونت انھوں نے اختیار کی ۔ان سے کافی متاثر تھا۔علاقے کے ذمے داران ہر معاملے میں ان کو اپنا مشیر کار بناتے۔اکثر دینی و سماجی پروگرام انھی کی صدارت میں منعقد ہوتے۔مولانا مرحوم مغفور کا اگرچہ انتقال ہو گیا لیکن ان کا نام نامی اسم گرامی رہتی دنیا تک ملت اسلامیہ ہندیہ کی نٸی نسلوں کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے اور ان کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لٸے کارہاٸے نمایاں انجام دینے والوں میں آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے گا۔
اس میں کوٸی شک نہیں کہ حضرت کی شخصیت ہمارے لٸے جزو لا ینفک تھی۔ان کا خلا ہمیں بہت دنوں تک محسوس ہوتا رہےگا۔ویسے ان کا وجود جس طرح ہم پر چھایا ہوا تھا کہ ہمیں یہ یقین کرنے میں ایک بڑا عرصہ لگے گا کہ وہ ہمارے درمیان نہیں رہے۔