مولانا مظہر عالم قاسمی۔۔ ایک عہدکا خاتمہ ۔۔۔ محمدشاہدالناصری الحنفی۔

سیتامڑھی بہارکے رہنے والے حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب براری رحمتہ۔اللہ علیہ شہرممبئ کے اس پرآشوب زمانہ میں بعض اکابردیوبند کے اشارہ پرتشریف لائے جب ممبئ شہر میں دیوبند سے انتساب جرم عظیم تھا ۔ممبئ بدعات کامرکز بناہواتھا اہل حق کابرسرعام وعظ وتبلیغ یادرس وتدریس کرنا گویا ایک طرح کی بغاوت تھی ۔بغاوت کس سے اس زمانے کے جبئہ دستارمیں ملبوس غنڈوں سے ۔ بہرحال مشیت الہی کہ ان حالات میں حضرت براری تشریف لائے اورانہوں نے ممبئ عظمی محمد علی روڈ بھنڈی بازار کواپنی دعوت وتبلیغ کامرکز بنایا ۔اورالحمداللہ بالغ نظری کوبروئے کارلاتے ہوئے انتہائ حکمت وبصیرت اورموعظت حسنہ کے ساتھ عامتہ المسلمین کو عقائدحقہ وسنت صحیحہ کی طرف متوجہ فرمایا اور علم دین کی اشاعت کیلئے دارالعلوم امدادیہ کے نام سے چونابھٹی مسجد میں دینی ادارہ قائم کیا جہاں سے بتدریج وقت کے ساتھ ساتھ اچھے اورنامور علماء پیداہوئے انہی میں ایک مشہور ومقبول نام حضرت مولانا مظہرعالم صاحب قاسمی رح کاتھا جوحضرت براری رح بانی دارالعلوم امدادیہ ممبئ کے برادرزادہ تھے ۔ آپ نے متوسطات تک کی تعلیم اپنے چچا حضرت براری سے دارالعلوم امدادیہ میں حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم دیوبند سے تکمیل علوم اسلامیہ فرمائ ۔
دیوبندسے فراغت کے بعد اپنے عم گرامی قدر کی احیاء سنن وشریعت کے مشن کومزیدتقویت پہونچانے کی خاطر ممبئ تشریف لے آئے ۔دارالعلوم امدادیہ میں تدریسی خدمات میں مشغول ہوگئے ۔پھر آپ کوباندرہ اسٹیشن والی مسجدمیں امامت وخطابت کی ذمہ داری سونپی گئ ۔آپ نے بطریق احسن وہاں خدمات انجام دیں۔ بعض حالات کی بناءپر اس مسجد پر مسلمانوں کے دوسرے مکتبئہ فکرکے لوگوں کاقبضہ ہوگیاتو حضرت مولانامرحوم نے اس وقت اپنے بعض مخلصین کے مشورہ سے مضافات ممبئ کے میراروڈ میں جواس وقت بے آب وگیاہ وادی کامنظرپیش کررہاتھا گویا مکہ مکرمہ میں بناء کعبتہ اللہ کامنظرباب عرب یاباب مکہ ممبی کے مضافات میراروڈ میں دہرایاجارہاتھا۔ اللہ کی خاص مدداورنصرت ان کے شامل حال رہی اوربہت جلد جس مدرسہ کی بناء دارالعلوم عزیزیہ کے نام سے رکھی تھی وہ بام عروج پرپہونچ گیا اطراف واکناف ہند سےجوق درجوق طالبان علوم نبوت اپنی علمی تشنگی بجھانے کیلئے کشاں کشاں آنے لگے اورہرسال ایک اچھی خاصی تعداد درجات ثانویہ کی تعلیم کے بعد دیوبند ندوہ یاسہارنپور کے جامعات کارخ کرتی ۔ اساتذہ اررکارکنان بھی مخلص ملے تھے ۔ یوں تودارالعلوم عزیزیہ تن تنہا مولانا مظہرعالم مرحوم کی فکروتخیل کانتیجہ اوران کے جہد پیہم کانتیجہ تھا مگراس زمانے میں ان کے دودست وبازو ایسے تھے جن کے ذکرجمیل کے بغیردارالعلوم عزیزیہ کی تاریخ ناقص ہوگی اوران دونوں کے ساتھ بھی خلاف عدل بات ہوجائے گی ۔ ان میں ایک تھے جناب محترم حضرت حافظ داؤدصاحب مرحوم اوردوسرے مولاناعبدالخالق صاحب مدظلہ ۔ اللہ ان دونوں بزرگوں کوجزائے خیردے۔آمین ۔
واقعہ یہ ہے کہ کیچڑ اورمچھڑ کے درمیان بانس کے مچان پربھی ان حضرات نے علوم نبویہ کی اشاعت کیلئے اوردارالعلوم کے استحکام وبقاءکیلئےاپنے شب وروز گذارے ہیں ۔ورنہ ممبئ میں اس زمانے میں بھی صرف اپنے خاندان کی آسودہ حالی اس مشقت اورتگ ودو کے باوجودبھی ہوجاتی مگر نیابت رسول کافریضہ بے چین کئے ہواتھا اورایک تنہا دارالعلوم امدادیہ بھی کافی نہ تھا ۔
1995 عیسوی میں میری پہلی ملاقات مولاناسے ان کے مدرسہ میں ہی ہوئ ۔ وضع قطع اورچال ڈھال سے بہرحال عالمانہ خوبو توتھی مگرالفاظ اورگفتگو سہل ممتنع نہ تھی اردوئے معلی بلفظ دیگرمقطعاتی کلام کرنے کے عادی تھی بسااوقات ایسامعلوم ہوتا کہ مہتمم صاحب گفتگونہیں مقالہ پیش فرمارہے ہیں ۔
بہرحال علیک سلیک کے بعد تفصیلی گفتگو ہوئ تعارف بھی ہوا ۔ انہوں مسرت کااظہارکیا اورملنے ملانے کے وعدہ پرمجلس برخواست ہوگئ ۔
اسی زمانے کے آس پاس دارالعلوم میں کچھ اختلاف ہوگیا اورمہتمم صاحب اپنے وطن میں ابتلائے سیلاب تھے ۔ادھرمخالفین نے بھیونڈی سے کسی عالم دین کو طلبہ کاامتحان لینے کیلئے بلایا ۔انہوں نے جائزہ لینے کے بعد دارالعلوم کے تعلیمی نظام پر انگشت نمائ فرمائ اورکچھ دیگرایسی باتیں فرمائیں جودارالعلوم کے ایک مخلص اورعلماء کے قدرداں ٹرسٹی حاجی غلام رسول مرحوم کیلئے ناقابل برداشت تھی اورانہوں نے اس کو نامناسب تبصرہ قراردیتے ہوئے ان عالم صاحب سے سخت خفگی کا اظہارکیا ۔ اللہ پاک غریق رحمت فرمائے حاجی صاحب مرحوم کو بڑے قابل قدر مخلص آدمی تھے ۔
دارالعلوم عزیزیہ کواب نظرلگ چکی تھی اوردرپردہ عصبیت اورنفاق کاخطرناک کھیل شروع ہوچکاتھا ۔ حافظ داؤد مرحوم شب کے 10 بجے میرے پاس آئے اورفرمانے لگے کہ مہتمم صاحب گاؤں میں پھنسے ہوئے ہیں سیلاب کی وجہ سے آمدورفت میں دقت ہے اورمدرسہ میں یہ حالات پیش آچکاہے ٹرسٹیان میں گروپ بندی کی نوبت آنے والی ہے اس سلسلے میں مہتمم صاحب آپ سے بات کرناچاہتے ہیں ۔ موبائل توتھانہیں اس لئے ہم لوگ اسٹڈی کی طرف گئے ۔مہتمم صاحب سے بات ہوئ پھرخاکسارنے حاجی عبدالقیوم سمار اورحاجی غلام رسول صاحبان جواس وقت عزیزیہ کے مین ٹرسٹیان میں تھے بات ہوئ الحمداللہ ان دونوں حضرات نے مہتمم صاحب پراطمینان کااظہارکیا ۔ اوران دونوں کی وجہ سے اس وقت یہ فتنہ ختم ہوگیا ۔ اس کے بعد مہتمم صاحب آئے توخاکسارنے ان کوکئ مشورے دئے مگرشاید وہ ٹرسٹیان سے اس قدرخائف ہوچکے تھے کہ اس پرعمل نہیں کرپائے۔۔۔ مولانامظہرعالم مرحوم ہم لوگوں کی طرح انسان تھے غلطیاں انسان کرتاہے خمیازہ بھی وہی بھگت تاہے ۔ مولانامرحوم کواللہ پاک معاف فرمائیں انہوں جاہل مالداروں کو دارالعلوم کاٹرسٹی بنادیا اورخانودادے یادیگرہمراہی علماء کوبھی ٹرسٹی کے لائق نہیں سمجھا جبکہ حضرت گنگوہی جوعلمائے دیوبند کے سرخیل ہیں ان کافتوی ہے کہ دینی اداروں کا کسی جاہل کوممبربنانا بھی گناہ ہے ۔ مگرنہ جانےکیوں ہمارے علماء جاہل مالداروں پراس قدربھروسہ کرلیتے ہیں کہ وہ خودحاشیہ پرجاکرمسند ان حاہلوں کو ان کے دوچارپیسوں کیلئے پیش کرتے ہیں ۔ دیکھ لیجیے جہاں جہاں مدارس میں فتنے ہوئے جاہل ٹرسٹیوں کی وجہ سے ہوئے یافاسق منافق علماء کی وجہ سے ۔ اورمخلصین اس چکی میں بری طرح پس جاتے ہیں ۔ بہرحال اب اس کو عادتا کیاکہیں بجز اس کے کہ یہ بھی قضاء وقدرکافیصلہ تھا کہ مرحوم مولانامظہرعالم صاحب کے ساتھ دارالعلوم عزیزیہ کے ان جاہل ٹرسٹیان نے بہت بدتمیزی کی جن کومولانا نے شعوربخشاتھا اورجن کوعزت دی تھی اوردینی ادارے کاذمہ داربناکرشرف بخشاتھا ۔
میں اس غمناک موقع پرصاف لفظوں میں ایسے لوگوں کویہ پیغام دیناچاہتاہوں کہ علماء کی رسوائ اوربے عزتی کابدلہ دنیااورآخرت میں لینے کیلئے تیاررہیں ۔یہ حق العبد ہے ناقابل معافی جرم ہے ۔
بہرحال ۔دنیاتوفناہونے والی ہے اورہم سب فناہونے والےہیں مگرباقیات الصالحات کوفنانہیں ۔ہزاروں علماء وحفاظ اوردعات کی دینی سرگرمیاں اوردارالعلوم عزیزیہ کے بام ودر عنداللہ مولانامظہرعالم صاحب قاسمی مرحوم کیلئے باقیات الصالحات ہیں ۔ پھریہ کہ مولانا کی وفات جس موذی مرض میں ہوئ وہ مولانا کوشہادت کے درجہ سے سرفراز کرتی ہے ۔
مولانا مرحوم کوکئ اولادیں ہیں جن میں ایک فرزند تھا جس کا مولانا مرحوم کی زندگی میں ہی انتقال ہوگیاتھا ۔ دوبیٹیوں کے شوہر سے خاکسار کی دیدوشنید ہے جن میں ایک المحترم مولانا مفتی انعام الحق قاسمی زیدشرفہ ہیں جن سے اللہ پاک علوم حدیث کے علاوہ تزکیہ وسلوک واحسان کابھی خوب خوب کام لےرہے ہیں ۔ انتہائ صالح بردبار حلیم الطبع ذی علم شخص ہیں ۔ دوسرے عزیزم مولوی ابوالکلام سلمہ اللہ ہیں جوشریف الطبع عزیز ہیں ۔ مولانا نے اپنے پیچھے اہلیہ محترمہ اور بیٹی داماد اوربہو پوتے کوبھی چھوڑاہے اورایک بہت بڑی تعداد شاگردعلماء حفاظ کی بھی چھوڑی ہے جویقینا مرحوم کیلئے زادآخرت ہے ۔دعاہے کہ اللہ پاک مرحوم کے زلات کومعاف فرمائے اوران کے حسنات کوقبول فرمائے آمین
شریک غم
محمدشاہدالناصری الحنفی ادارہ دعوتہ السنہ مہاراشٹرا ۔ مدیرماہنامہ مکہ میگزین ممبئ