ایمان کیا ہے؟ اس سوال کا سب سے سہل جواب حدیث جبریل میں ہے: ’’ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پرایمان لائے اوراس کے فرشتوں پر اوراس کی کتابوں پر ،اوراس کے رسولوں پر،اورروزقیامت پر،اوریقین رکھے خیروشرپرکہ وہ قضاء وقدرسے ہیں‘‘۔ ان میں سےبیشتر امور کا تعلق غیب سے ہے۔ اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر ایمان کے جو نظر نہیں آتے اور قیامت کے جو ابھی برپا نہیں ہوئی ہے ۔ الہامی کتابوں پر اس حیثیت سے یقین کہ وہ رب کائنات کی نازل کردہ ہیں اور رسولوں کو مبعوث شدہ پیغامبر ماننا بھی ایمان کا جذو لاینفک ہے۔خیرو شرکو مقدر سمجھنا ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ احادیث شریفہ میں ایمان کی مٹھاس کا بھی ذکر ملتا ہے، لیکن سارے اہل ایمان اس سے لطف اندوز نہیں ہوتے ؟ اس کی کیا وجہ ہے ؟ ہم لوگ چونکہ پیدائشی مسلمان ہیں اس لیے ایمان کی لذت سے بہرہ ور کرنے والے شرائط کو پورا کرنا ضروری نہیں سمجھتے اور محروم رہ جاتے ہیں ۔
نبی ٔ کریم ﷺ نے فرمایا اُس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جو اِس بات پر راضی ہوگیا کہ اُس کا رب اللہ، اُس کا دین اسلام اور محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں۔ یعنی غیر شعوری ایمان یا طوعاً و کرہاًدین اسلام کی اتباع سے کام نہیں چلتا ۔ ایمان کا مزا لینے کے لیےاللہ کے پروردگار ،اسلام کے نظامِ حیات اور نبی کریم ؐ کو شارح دین ہونے پر راضی و مطمئن ہونا ضروری ہے۔اطمینان و سکون کی یہ کیفیت ایمان کے ذائقہ سے ہمکنارکرتی ہے۔ اس کے بغیر مومن قرآنِ عظیم کے تقاضے’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو پورا کہ پورا اسلام میں داخل ہوجاو اور شیطان کی پیروی نہ کرو‘‘ کو پورا نہیں کرسکتا ۔ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا: بندہ ایمان کی لذت اُسی وقت پاتا ہے، جب وہ خدا کے سب فیصلوں پر پورا ایمان رکھے۔
ایمان کا مزہ لینے کے لیے اللہ کی عبادت و اطاعت کے علاوہ محبت بھی درکار ہے۔ نبیٔ پاکؐ کا فرمان ہے’’ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوگاجب تک کہ میں اس کے پاس اس کے باپ‘ بچوں اورتمام لوگوں سے محبوب ترنہ ہوجاؤں‘‘۔ یعنی حبِّ الٰہی کے بعد رسول ؐ سے والد اور اولاد سے زیادہ محبت کے بغیر بھی ایمان کی مٹھاس کو پانا ممکن نہیں ہے ۔ ایک اور حدیث ہے کہ ’’جس میں تین باتیں ہوں، اُس نے ایمان کی حلاوت پالی اور اُس کا ذائقہ چکھ لیا:ایک یہ کہ اللہ اور اُس کا رسول اُسے اُن کے سوا ہر شخص سے بڑھ کر محبوب ہوں، دوسرے وہ لوگوں سے محبت کرے تو صرف خدا کے لیے محبت کرے، تیسرے یہ کہ جب اللہ نے اُس کو کفر سے نکال لیا تو اُس کی طرف لوٹنااُسے ایسا ناگوار ہو،جس طرح یہ ناگوار ہے کہ اُس کے لیے آگ بھڑکائی جائے اور اُس میں ڈال دیا جائے‘‘۔
اس حدیث میں محبت کا دائرہ اللہ اور اس کے رسول سے وسیع ہوکر انسانوں کو اپنے احاطے میں لے لیتا ہے بشرطیکہ اس کا محرک اللہ کی محبت ہو۔ خالق سے محبت کا لازمی تقاضہ مخلوق سے محبت ہےبشرطیکہ وہ اللہ کی محبت کے تابع ہو۔ انسانوں کی تابعداری میں اہل ایمان رب کائنات کی نافر مانی نہیں کرسکتے ۔ یہی بات ایک اور حدیث میں فرمائی گئی ’’جسے یہ محبوب ہو کہ ایمان کا ذائقہ چکھے، اُسے چاہیے کہ بندوں سے محبت کرے تو صرف خدا کے لیے محبت کرے‘‘ یعنی بندوں سے محبت کا مقصود اللہ کی رضا ہو۔ حدیث کے آخر میں جو فرمایا کہ انسان کاکفر کی طرف لوٹنااُس کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیئے جانے سے زیادہ ناگوار ہو۔یہ دراصل اپنی ذات سے سچی محبت ہے۔ اس طرح معلوم ہوا کہ ایمان کا مزہ محبت میں پوشیدہ ہے۔ اللہ سے محبت ، اللہ کے رسول ﷺ سے محبت، اللہ کے بندوں سے اور اپنی ذات سے محبت ۔ بقول شاعر؎
ایمان کا اثر ہے محبت کی جستجو ایمان کا ثمرہے محبت کی آرزو