این آر سی کے ڈرافٹ سے آسام میں انسانی بحران پیدا محمد امتیاز حسین صدر انڈین یونین مسلم لیگ تلنگانہ کا بیان

حیدرآباد31؍جولائی( آمنا سامنا میڈیا)محمد امتیاز حسین صدر انڈین یونین مسلم لیگ تلنگانہ نے اپنے صحافتی بیان میں کہا کہ آسام کے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس( این سی آر) کے فائنل ڈرافٹ میں چالیس لاکھ سے زیادہ لوگوں کے ناموں کا نہ ہونا اور اس قدر لوگوں کو غیر ملکی قرار دینا ایک انسانی بحرانپیدا کرسکتا ہے۔ انہوں نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنے سیاسی مفادات کے لئے ،ایک منصوبہ بند حکمت عملی تحت چالیس لاکھ لوگوں کو غیر ملکی قرار دے رہی ہے،اتنے لوگوں کو غیر ملکی قرار دینے کے پیچھے ایک بڑا پلان نظر آتاہے۔ اس سے تعصب اور تنگ نظری کی بو آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چالیس لاکھ کی تعداد کوئی معمولی تعداد نہیں ہے ،این آر سی سےاتنی بڑی تعداد کا نام حذف کرکے حکومت کیا پیغام دینا چاہتی ہے ؟انہوں نے کہا کہ چا لیس لاکھ شہریوں کو غیر ملکی قرار دینے کا مقصدمحض سیاسی ہے۔انڈین یونین مسلم لیگ تلنگانہ آسام حکومت کے اس حرکت کی سخت مذمت کرتی ہے اور آنے والوں دنوں میں یہ ملک کا ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ ملک کے چالیسلاکھ لوگوں کو غیر ملکی شہری قرار دینے کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوگا اور کیا کیا جائےگا حکومت کے پاس اس کا کوئی پلان نہیں ہے، اب یہ لوگ کہاں جائیں گے اور کس سے اپنی فریاد کریں گے جب کہ اس منصوبہ میں حکومت خود ہی شامل ہے۔ جبکہ ایک ہی خاندان کے چند لوگوں کے نام فہرست میں شامل کیا گیا اور چند لوگوں کے ناموں کو خارج کر دیا گیا۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ این آر سی کے اس فائنل ڈرافٹ میں بی جے پی ممبر اسمبلی رماکانت اور ان کے کنبہ کے دیگر افراد کا نام غائب ہے ۔ کیا بی جے پی حکومت انہیں بھی غیر ملکی قرار دے سکتی ہے؟ اسی طرح فوج کے سابق افسر اجمل حق ، وزیر اعلی کے سیکورٹی گارڈ میں رہ چکے اسسٹنٹ پولیس انسپکٹر ( اے ایس آئی) شاہ عالم کا نام بھی فہرست میں نہیں ہے اور کئی لوگ ایسے ہیں جن کے پاس آدھار کارڈ ، پاسپورٹ اور دیگر ضروری کاغذات موجود ہیں، لیکن پھر بھی ان کا نام ڈرافٹ سے غائب کر دیا گیا۔ اس قدر بڑی تعداد میں لوگوں کو غیر ملکی قرار دینے سے عوام میں مایوسی ہونے کا خدشہ ہے۔ صدر انڈین یونین مسلم لیگ تلنگانہ نے مطالبہ کیا کہ این آر سی کی فہرست پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، اس پر دوبارہ غور ہونا چاہئے اور جو ملک کے حقیقی شہری ہیں ان کے ناموں کا اندراج ہونا چاہئے۔