مصیبت کی اس گھڑی میں پورے ملک کے انسان دوست حضرات اپنے وطن میں بے وطن ہونے والے 40 لاکھ مسلمانوں کے ساتھ ہیں ۔۔۔ محمدشاہد الناصری الحنفی

حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کے ایماء پر آسام میں محض بنگلہ دیشی ہونے کے شبہ پرہونے والے گویا ایک طرح کے ریفرینڈم نے اپنے ہی وطن کے چالیس لاکھ لوگوں کوبے وطن کردیاہے جس سے انصاف پسنداورامن پسند انسان دوستوں میں سخت تشویش پائ جانے لگی ہے ۔ ایسے سخت تشویشناک اورغمناک حالات میں ادارہ دعوتہ السنہ مہاراشٹرااورابطہ عالم انسانی کے صدر محمدشاہد الناصری الحنفی نے آسام کے ان مظلوم مسلمانوں کو صبرواستقامت کی تلقین کرتے ہوئے ان سے اپیل کی ہے کہ وہ صبروضبط کادامن مضبوطی سے تھامے رہیں اوراللہ کی طرف پہلے سے زیادہ یکسوئ کے ساتھ متوجہ ہوں ۔ ناصری صاحب نے وہاں کے مسلمانوں کے نام اپنے پیغام میں کہاہے کہ ربانی ہدایت کے مطابق صبراورصلوات سے اللہ کی مددحاصل کریں اورملک کے انسان دوست لوگوں سے اپیل کی ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں وہاں کے مظلوموں کی حفاظت ونصرت کیلئے ہم پورے ملک کے باشندے ایک ہوکر ہرحالت میں اپنے وطن کے لوگوں کو اپنے ہی وطن میں بے گھراوربے یارومددگار ہونے سے بچائیں گے۔
اس موقع پر مولانا محمدشاہدناصری نے جمیعت علماء ہند کے دونوں گروپ کی اور مولانابدالدرین اجمل قاسمی کی بالخصوص آسامی باشندوں کی حمایت ومعاونت اوران کوقانونی امدادفراہم کرنے کی تعریف وتحسین کرتے ہوئے کہا کہ سچی بات تویہ ہے کہ ماقبل آزادی بھی اورآزادی کے بعد صحیح معنوں میں ہرہرموقع پر دکھ درد کے ماروں کی اگرکسی تنظیم نے سب سے پہلے دادرسی کی ہے تواس کا نام جمعیت علماء ہند یاامارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ہے ۔ ہاں بابری مسجد کی مظلومانہ شہادت کے بعد آل انڈیاملی کونسل کی جدوجہد اورمسلمانوں کی عظمت رفتہ کی واپسی اوران کے اندرسے خوف و وہم ختم کرنے اوران کے اندر سیاسی شعوربیدارکرنے کے سلسلہ میں بطورخاص حضرت مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمی رح کوفراموش نہیں کیاجاسکتا ۔ ملک جن حالات سے ابھی گذررہاہے ہمیں اس نازک موقع پر حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی۔ حضرت مولاناسیداسعد مدنی ۔حضرت قاضی مجاہدالاسلام قاسمی رحمہم اللہ کی شدت سے کمی محسوس ہورہی ہے۔ یہ نفوس ثلاثہ ہندوستانیوں کیلئے بمنزلہ ریڑھ کی ہڈی تھے ۔
مولانا ناصری نے حکومت ہند اورعدلیہ سے بھی درخواست کی ہے کہ انسانی بنیادوں پراورہندوستانی اخلاق واقدار کی بنیادپربھی ہمارے اوپر یہ فریضہ عائد ہوتاہے کہ ہم تکنیکی بنیادوں پراپنےسسٹم میں درآنے والی کمی اورکوتاہیوں کی اصلاح کرنے کے بعد انسانی حقوق کا خواتین واطفال اورضعیفوں کاتحفظ کرتے ہوئے اقوام عالم میں ہندوستان کی عظمت وبرتری اوراس کے عظیم تر جمہوریت ورواداری کی ساکھ کومتاثر ہونے سے بچائیں ۔