tahreerenav2@gmail.com
بچپن میں ایک نظم پڑھی تھی،چوتھی یا پانچویں میں جس کا عنوان تھا’’دو خدا‘‘۔نظم یوں شروع ہوتی ہے:
اگر دو خدا ہوتے سنسار میں تو دونوں بلا ہوتے سنسار میں
خطرناک ہوتا زمانے کا رنگ ہوا کرتی ہر روز دونوں میں جنگ
اِدھر ایک کہتا میری سنو:اُدھر ایک کہتا میاں چپ رہو!
اسی طرح یہ نظم آگے بڑھتی ہے اور تضادات ہر شئے اور واقعے میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔مثلاً ایک خدا چاہتا کہ آج بارش برپا کرنی ہے ،اُسی لمحے دوسرا خدا کہتا کہ نہیں،دھوپ نکالنی ہے۔شاعر پوری نظم میں یہ سمجھا دیتا ہے کہ اِس دنیا کے دو خداؤوں کے رہنے سے ہمیشہ ہی ٹکراؤ کی کیفیت بنی رہتی اور کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں ہوتا اور اِس طرح دنیا کا نظام چوپٹ ہو جاتا۔شاعرنے یہ بھی ثابت کیاہے کہ اِس دنیا کا خدا ایک ہے اور یہی سبب ہے کہ دنیا ٹھیک ٹھاک چل رہی ہے۔ہم بہت خوش تھے ایک خدا کے ثابت ہو جانے سے کیونکہ ہم ایک خدا کو ماننے والے تھے اور آج بھی ہیں لیکن کیا پتہ تھا کہ شاعر کی یہ نظم آج (کیجریوال ) کے دہلی پر صادق آئے گی اور نام نہاد دو خداؤوں کے بیچ دہلی پِس جائے گی اور اس کے عوام مجبور و بے بس دیکھتے رہ جائیں گے اور قانونی داؤ پیچ کے سہارے مرکز کی مودی سرکار اپنی سبقت ثابت کرنے کی خاطردہلی پر بالراست حکومت کرے گی۔
اب جب کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آگیا ہے کہ عوام کے ذریعے منتخب حکومت کے اختیارات ہر قیمت پر (مرکز کے ذریعے نامزد) لیفٹننٹ گورنر (ایل جی)سے زیادہ ہیں اور تین شعبوں مثلاً زمین، پولیس اور پبلک آرڈر کو چھوڑ کرتمام شعبۂ حیات پر دہلی کی منتخبہ حکومت کا ہی اختیار ہے پھر بھی ایل جی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہے ہیں۔عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے دوسرے روز جب وزیر اعلیٰ دہلی اروند کیجریوال نے کچھ آفیسروں کی منتقلی کو ہری جھنڈی دے دی،پھر بھی ایل جی انل بیجل ٹانگ اڑا رہے ہیں کہ وہ وزارت داخلہ کے تحت اپنی ذمہ داری نبھانے کے مجاز ہیں اور مذکورہ آفیسروں کی منتقلی یابحالی اسی وزارت کے تحت ہی آتی ہے اور ۲۱؍مئی ۲۰۱۵ء کا نوٹیفکیشن جو اِس وزارت کے ذریعے جاری ہوا تھاجس کی رو سے آفیسروں یعنی بابوؤوں کی تقرری یا منتقلی کا اختیار ایل جی کے سپرد کر دیا گیا تھا،عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے وہ نوٹیفکیشن کالعدم نہیں ہوتا۔یہ جواز دے رہے ہیں ایل جی جب کہ کیجریوال کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ ،وزارت داخلہ سے اوپر ہے۔اگرسپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا ہے تو اس سے پہلے کے وزارت داخلہ کے اس تعلق سے تمام فیصلے(نوٹیفیکیشن) اپنے آپ ہی مسترد ہو جاتے ہیں۔کیجریوال کا کہنا ہے کہ ایل جی اوربعدہ وزارت داخلہ، سپریم کورٹ کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں اور ممکن ہے کہ وہ ان کے خلاف توہینِ عدالت کا مقدمہ دائر کر یں اگر ان کے آرڈر(آفیسروں کی منتقلی) کووقار نہیں بخشا جاتا۔
دہلی میں یہ سب اُس وقت سے چل رہا ہے جب سے کیجریوال کی حکومت آئی ہے۔بھکت الٹا کیجریوال ہی کو مجرم ٹھہراتے ہیں۔ان کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ انہیں کام نہیں کرنا ہے اس لئے وہ آئے دن ناٹک کرتے رہتے ہیںاور بات بات پر دھرنے پر بیٹھ جاتے ہیں۔بھکتوں کا سوال ہے کہ ایک منتخب وزیر اعلیٰ کو یہ سب کرنازیبدیتا ہے؟بھکت یہ بھی کہتے ہیں کہ شیلا دکشت جو ۱۵؍برسوں تک دہلی کی وزیر اعلیٰ رہیں ،ان کے زمانے میں تو کبھی ایل جی سے ٹکراؤ کی نوبت نہیں آئی اور انہوں نے بحسن و خوبی حکومت کی جب کہ اُن کے شروع کی میعاد میں مرکز میں بی جے پی یعنی اٹل بہاری واجپئی کی حکومت تھی۔۔۔۔لیکن بھکت شاید اس حقیقت کونہیں جانتے کہ ٹکراؤ کی نوبت تو اُس وقت بھی آتی تھی لیکن سمجھ بوجھ سے آپس میں حل کر لیا جاتا تھا اور بات آگے نہیں بڑھتی تھی۔اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ مخالف پارٹی کا ہوتے ہوئے بھی اٹل بہاری واجپئی میں معاملات کو سلجھانے کی فکر رہتی تھی،وہ ٹکراؤ کی ذہنیت نہیں رکھتے تھے، جس طرح کی ذہنیت آج کے وزیر اعظم رکھتے ہیں۔واجپئی جی کے بارے میں اکثر یہ کہا جاتا تھا کہ ’’ صحیح آدمی غلط پارٹی میں ہے‘‘۔کیا یہی بات مودی جی کیلئے کہی جا سکتی ہے؟ہرگز نہیں۔اس لئے وقت اور شخصیات کا بھی فرق ہوتا ہے۔ایک اور بات یہ بھی تھی کہ تب بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں تھی ،اس لئے اتنا زعم نہیں تھا۔شیلا دکشت کو بعد کے ۱۰؍برس اُس وقت ملے جب مرکز میں کانگریس کی منموہن سنگھ کی حکومت تھی۔پھر اُن ادوار میں تو تکرار کی کوئی نوبت ہی نہیں آئی اور سب کچھ حسب ِ حال اور معمول چلتا رہا اور شیلا دکشت نے مزے لے لے کر حکومت کئے۔
لیکن یہاں کیجریوال کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔کیجریوال آئے تو ہیں کانگریس کو ہرا کر لیکن ساتھ ہی انہوں نے نام نہاد مودی لہر کا باہمت دفاع کیا اور دہلی اسمبلی کی ۷۰؍ میں سے ۶۷؍نشستیں حاصل کیں۔یہ اُس لہر پر ایک زور دار طمانچہ تھاجس کی گونج آج تک برسر اقتدار حلقہ محسوس کر رہا ہے۔کیجریوال کے بازؤوں کو کاٹنے کے لئے ہی ۲۱؍مئی ۲۰۱۵ ء کو وزارت داخلہ کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس کی رو سے اب وزیر اعلیٰ آفیسروں بمعنیٔ دیگر بابوؤوں کی تقرری کا مجاز نہیں ہوگا اور جتنی بھی اس طرح کی تقرریاں ہوں گی وہ براہِ راست وزارتِ داخلہ کی طرف سے ہوں گی۔جب تقرریاں ہوں گی تو ان کی منتقلی اور برخواستگی کا اختیار بھی وزارتِ داخلہ ہی کو ہوگا۔اس نوٹیفیکیشن سے یہ ہوا کہ اپنی مرضی کا سکریٹری تک کیجریوال نہیں رکھ سکتے ۔اس کے علاوہ ہر شعبے میں یہی بابو بااختیار ہوتے ہیں۔اِس نوٹیفیکیشن کی رو سے تمام کے تمام مرکز یعنی مودی حکومت کے ذریعے مقرر کئے گئے آفیسر ہی ہر جگہ تعینات ہیں۔وہ پھر کیوں کر کیجریوال کی سنیں گے۔بیچ میں ایک حادثہ بھی ہوا ،غلط یا صحیح کہ فروری میںدہلی کے چیف سیکریٹری اَنشو پرکاش کے ساتھ عام آدمی پارٹی کے ۲؍وزیروں نے ہاتھا پائی کی۔یہ مقدمہ عدالت میں زیر ِ سماعت ہے اور بہت جلد کیجریوال اور ان کے وزیروں کے خلاف چارج شیٹ بھی داخل ہو سکتی ہے۔عدالت کے فیصلے کے بعد کیجریوال گرفتار بھی ہو سکتے ہیں۔
دہلی میں نظم و نسق کا اختیارمرکزی وزارتِ داخلہ کے پاس ہونے سے دہلی کی آپ حکومت اور اس کے وزرا اور ایم ایل ایز نیز کارکنان کس قدر غیر محفوظ ہیں ،اِن اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٓاپ کے ۳۵؍ایم ایل ایز کے خلاف فوجداری کے مقدمات درج ہیں جن میں سے ۱۳؍گرفتار ہو چکے ہیں ۔ان پر اغوا، آبروریزی،جعلسازی،تاوان،فساد برپا کرنے،گھریلو تشدد،ذات پات میںتعصب برتنے جیسے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ملک میں ایساکوئی صوبہ نہیں ہے جس کے آدھے سے زیادہ ایم ایل ایز فوجداری مقدمات کا سامنا کر رہے ہوں اور ایک چوتھائی اسمبلی سیشن جاری رہنے کے وقت حاضر ہوں اور وہ ضمانت پر ہوں۔ملک کے کسی بھی صوبے میں اس طرح سے اپوزیشن (جو بی جے پی کے نہیں ہیں وہ اپوزیشن ہی ہوئے)کے ایم ایل ایز کو ٹارگیٹ نہیں کیا گیا ہے جس طرح سے دہلی میں کیا گیا ہے۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بدلے کی سیاست عروج پر ہے اور کیجریوال کو کام کرنے نہیں دینا ہے۔چونکہ کیجریوال نے اپنی ایک اچھی شبیہ چھوڑی ہے اور دہلی کے لوگ اُنہیں چاہتے ہیں۔اگر وہ زیادہ کام کرتے ہیں تو پھر سے چن لئے جائیں گے جو بی جے پی قطعی نہیں چاہتی اور دل ہی دل میں کانگریس بھی یہی چاہتی ہے ۔عام چناؤ بھی قریب ہیں اور ممکن ہے کہ عام آدمی پارٹی دہلی کی ۹۰؍فیصد نشستیں کہیں جیت نہ لے اور یہ بی جے پی کو گوارا نہیں کیونکہ آج کی تاریخ میں دہلی کی تمام سیٹیں بی جے پی کے پاس ہیں۔
کیجریوال ایک سیاسی مردِ مجاہد ہیں اور پڑھے لکھے ہیں۔وہ اپنے حدود کو جانتے ہیں۔آج تک وہ کامیاب و کامران نکلے ہیں اور ایسی امید ہے کہ وہ آئندہ بھی بی جے پی کے ارادوں کو دھول چٹائیں گے۔اگر اس تناظر میں بات کی جائے تو کیجریوال اور مودی میں کوئی میل نہیں۔بس وہ خود کو ثابت قدم رکھیں۔ہندوستانی عدلیہ انصاف پسندوںکے ساتھ ہے اور یہی ہندوستانی جمہوریت کے لئے ایک امید کی کرن ہے۔اسی لئے تو دہلی کے معاملے میں جو فیصلہ آیا وہ جمہوریت کی جیت ہے اور اُس جمہوریت کی جس میں سیکولرزم سب سے بڑا عنصر ہے۔عدالت عظمیٰ کا فیصلہ یہ واضح اشارہ کرتاہے کہ کسی بھی صوبہ میں دو خداؤوں کی قطعی ضرورت نہیں ورنہ تصادم اور ٹکراؤ ہوتا رہے گا جس سے صوبے کی ترقی متاثر ہوگی۔کیا یہ فیصلہ مودی جی اور ان کے حامی سن رہے ہیں؟٭