وطن عزیز ان دنوں جس تشویشناک صورت حال سے گزر رہا ہے، اس کا اندازہ ہر کس و ناکس کو ہے، رونا تقریبا سبھی لوگ رو رہے ہیں، لیکن سچ پوچھیے تو حل کسی کے پاس نہیں ہے، *کس کس پوشاک میں سنگھ کے ہرکارے ہمارے درمیان ڈیوٹی پر لگے ہوئے ہیں اس کا ہمیں اندازہ بھی نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتا، کیوں کہ جو قوم اندھ بھگتی پر آمادہ ہوجائے اور تجزیہ و تحقیق سے کوسوں دور ہوجائے وہ بآسانی مخالفین کا لقمۂ تر بن جاتی ہے،* حالانکہ ہمیں تو حکم دیا گیا تھا تحقیق و تجزیے کا یا ایھا الذین آمنوا إن جاء کم فاسق بنبإ فتبینوا أن تصیبوا قوما بجھالۃ فتصبحوا علی فعلتم نادمین،(سورہ حجرات:۶) (ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی غیر متقی (جو احکام شریعت کی خلاف ورزی کرتا رہتا ہے) کوئی خبر لے کر آئے، تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ (اس کی بات اور بے بنیاد اطلاع پر اعتماد کرکے) تم کچھ لوگوں کے خلاف نادانی میں کوئی اقدام کر بیٹھو، اور پھر اپنے کئے پریشمانی کا سامنا کرو)۔ *میڈیا کی کرم فرمائی پہلے ہی کیا کم تھی، اب تو سوشل میڈیا نے ظلم ستم، جنگ و جدل اور مکر و فریب کی ساری حدیں پار کر دی ہیں، ایسے نیوز پورٹل ہیں جن میں بعض تو نمایاں طور پر ننگ ملت اور ننگ دین ہیں، وہ ما یلفظ من قول إلا لدیہ رقیب عتید سے بالکل بے پروا ہوکر اپنی ڈیوتی پر لگے ہوئے ہیں، مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں لیکن پیٹ کی خاطر ان کی ہمدردیاں مسلم دشمنوں کے ساتھ ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کے تیر و نشتر اور جن کے تخریبی ذہن وقلم سے نہ کوئی شخصیت محفوظ ہے اور نہ تنظیم، نہ کوئی جماعت بچی ہے اور نہ جمعیت۔*
ایسے دور میں جب دیواریں بھی سننے لگیں اور پھر بات کو بتنگڑ بنایا جانے لگے، ہمارا رویہ بہت محتاط اور منصوبہ بند ہونا چاہیے، بد قسمتی سے جب سے مودی حکومت آئی ہے تب سے مسلمان مختلف بحثوں میں الجھے رہے ہیں، بلکہ اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ وہ موضوع بحث بھی بنے ہیں اور باہم دست و گریباں بھی رہے ہیں، جب سے یہ حکومت بنی تب سے خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا جانے لگا، ناامیدیوں کے چرچے ہونے لگے، ان کی طرف سے کم ہماری طرف سے زیادہ فرقہ پرستی اور فسطائیت کا ڈھول پیٹا جانے لگا، البتہ اس خوفناک صورت حال سے نکلنے کی تدبیر اور منصوبہ کے طور پر ہمارے پاس کوئی روڈ میپ نہیں، جو کچھ کوششیں ہوئیں وہ کار آمد وثمر آور ہونے سے پہلے ہی طشت از بام کی گئیں، اس کے نتیجہ میں انھیں اغوا کر لیا گیا یا اور ان کا رخ تبدیل کر دیا گیا، ہمارے یہاں زمینی سطح کی محنت و کوشش کا کوئی رواج ہی نہیں، جلسوں اور کانفرنسوں سے کم میں ہمارا کوئی کام نہیں چلتا، ہماری دس پانچ افراد پر مشتمل میٹنگ بھی میڈیا کی شاطر نظروں سے محفوظ نہیں رہ پاتی، ہم جو کام کرتے بھی نہیں یا مستقبل میں ان کے ہونے کے امید بھی نہیں ہوتی ان کا تذکرہ بھی میڈیا میں کرنا ضروری سمجھتے ہیں، *کیا ہندو تنظیمیں بھی ہماری طرح اپنی میٹنگوں کا ڈھنڈورا پیٹتی ہیں، کیا ان کے یہاں بھی کانفرنسوں کا دو رچلتا ہے، کیا وہ بھی قومی سرمایہ جلسوں کی نذر کرتی ہیں، کیا وہ بھی خوش کن نعروں پر جینے اور مرنے کی قسمیں کھاتی ہیں، کیا آر ایس ایس کی خاموش زمینی محنت ہمارے لیے مثال نہیں، کس طرح اس نے خاموشی کے ساتھ پورے ملک کے سسٹم پر قبضہ کر لیا اور اب پورے ملک کو یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ ’’دستور بدل دیا جائے گا‘‘، ’’اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو ختم کر دیا جائے‘گا ‘، ’’ملک کو ہندو راشٹر بنا دیا جائے‘‘، ’’ملک کو ہندو پاکستان بنایا جارہا ہے‘‘، ’’ملک میں ایک دوسرا ماحول پیدا ہو رہا ہے‘‘، ظاہر ہے یہ جملے عام لوگوں کے نہیں ایم، ایل اے، ایم پی، بیورو کرٹیس اور نائب صدر جمہوریہ جیسے لوگوں کی زبان سے نکلے ہیں، سپریم کورٹ کے ججوں کو یہ خطرات محسوس ہوئے ہیں تو آخر کیوں؟ اس لیے کہ اب پورے سسٹم میں اس نظریے کے لوگ شامل ہو چکے ہیں، کمال خاموشی اور طویل جدو جہد کے بعد شامل ہوئے ہیں۔*
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہم نے اس تقریبا ساڑھے چار سالہ مدت میں صرف خطرات کا ذکر کیا مگر خطرات سے نمٹنے کی تیاری کبھی نہیں کی، البتہ اپنی نادانیوں سے خطرات کو مزید تقویت دینے کا سبب ضرور بن گئے، ہم نے کبھی گھوٹالوں اور حکومت کی دھاندلیوں کو موضوع نہیں بنایا، ہم نے کبھی بھوک مری اور کسانوں کی خود کشی کو موضوع نہیں بنایا، ہم نے کبھی موب لنچنگ جیسے حساس مسئلہ پر احتجاج درج نہیں کرایا، *سوامی اگنی ویش جیسے سچ بولنے والے اور انسانیت کے لیے کام کرنے والے اور ظلم کے خلاف لڑنے والے ضعیف العمر کو بھیڑ نے پیٹ دیا تو قبل اس کے کہ اس کو میڈیا میں موضوع بنایا جاتا، اس کو دبانے کے لیے ہمارے ہی ایک شخص نے دوسرا موضوع فراہم کر دیا، اور چینل پر لائیو ڈبیٹ میں وہ کام کر دیا جس سے اورلاکھوں غیر کیا اپنے بھی یہ سوچنے لگے کہ مسلمان عورت پر ہاتھ اٹھانے میں کتنے غیر محتاط ہیں، یہ کام اس شخص نے کیا جو یہ تعلیم اسلام بیان کرتا ہے کہ جنگ کے دوران بھی عورتوں اور بچوں پر ہاتھ نہ اٹھاؤ، ایک گھسے پٹے موضوع پر بحث میں حصہ لے کر جو نادانی کی گئی اس کے نتیجہ میں میڈیا نے عنوان قائم کیا ’’دے دیا اسلام نے عورت کو اس کا اصل مقام‘‘،* ہم نے شریعت پر عمل کرنے کے بجائے شریعت کے تحفظ کا بیڑا اٹھا لیا جبکہ وعدۂ الہی اور بشارت نبوی اس کے برعکس تھی ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم اور نبی پاک نے فرمایا تھا احفظ اللہ یحفظلک، احفظ اللہ تجدہ تجاھک (ترمذی ج۴، رقم ۲۵۱۶)۔
حکومت گھوٹالوں پر گھوٹالے کرتی رہی، قتل و خون کے واقعات ہوتے رہے، دستور میں تبدیلی کی تیاری ہوتی رہی دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہندوستان پر فسطائی طاقت کا بھگوا پرچم لہرانے لگا اور ہم غفلت کا شکار رہے، ہماری حکمت و بصیرت جانے کب اور کس کام آئے گی، حکومت ہمیں الجھا کر، ہمارے مسائل کو چھیڑ کے، ہمارے قتل کے واقعات کی مدد سے آئندہ انتخابات کی تیاری کرتی رہی اور ہم اس کے دام میں پھنستے رہے، وہ الجھاتی رہی اور ہم الجھتے اور نعرے لگاتے رہے، کبھی ہم نے پلٹ وار کے بارے میں نہیں سوچا، کبھی ہم نے روایتی انداز فکر سے دامن بچاکر مسائل کے حل کی کوشش نہیں کی، حکومت نے کمال عیاری کے ذریعہ ہمیں الجھا کر اور ہمارے جزئی مسائل چھیڑ کر اپنی قوم کو متحد کر لیا، جو کچھ کسر رہ گئی تھی وہ کانگریس کے نادان صدر نے یہ کہہ کر پوری کر دی کہ ’’ہاں کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے‘‘ وہ بھی عین انتخابات سے یا اس بیان سے قبل ہمیں اس کی ایک اور دلیل فراہم کر دی کہ کانگریس بھی آر ایس ایس کا ہی ایک مکھوٹا ہے، جن لوگوں نے بھی اس کو سیکولر سمجھنے کی خطا کی ہے انھیں ہوشیار ہوجانا چاہیے، کانگریس کے ایک سابق وزیر نے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کا کام یہ کہہ کر کیا کہ ’’بی جے پی ملک کو ہندو پاکستان بنانا چاہتی ہے‘‘، *ان بنایات کی روشنی میں راقم دعوے کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ Polarizationہو چکا ہے، ہندو متحد ہوچکے اور آئندہ میدان بھی بھاجپا ہی کا ہے،* یہ بات سمجھنے کی ہے کہ کوئی بھی فکری تنظیم کبھی بھی اپنا ایک چہرہ نہیں رکھتی بلکہ اس کے کئی چہرے ہو تے ہیں، کانگریس بھی اس کا ایک چہرہ تھا، اس نے طویل عرصہ تک اپنی ڈیوٹی کی اور اب اس کے یہ بیانات ہندو پولرائزیشن کے لیے کام کر رہے ہیں، الیکشن سے عین قبل اس کی تیاری اور اس کی مہم دیکھ کر کہیں یہ لگتا ہی نہیں ہی نہیں کہ وہ پھر سے بر سرِ اقتدار آنا چاہتی ہے۔
*پھر ہونا کیا چاہیے؟* اس پر ہم چند سطروں کے بعد گفتگو کریں گے، پہلے یہ اور برداشت کر لیجئے کہ اس پورے دور حکومت میں ہماری پالیسیاں کہیں نہ کہیں ان کے لیے سود مند رہی ہیں، ہمارے یہاں کی یہ عجیب روایت ہے کہ نقدو احتساب سے آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں، یا تو کسی کو معصوم ومقدس سمجھا جاتا ہے یا ادنی سی بات کو لے کر کسی کو بھی گمراہ قرار دے دیا جاتا ہے اور اس کے جہنمی ہونے کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے،حالانکہ مسلک اعتدال کی داعی اس قوم کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ ہر چیز کا تجزیہ کرے، صحیح بات کی بھر پور تایید کرے اور غلط بات کی سخت نکیر کرے، نقد و احتساب سے کسی کو بالا سمھنا اور کسی بھی طرح کی نکیر سے دامن بچانے کا نتیجہ نہ صرف ہندوستان میں انتہائی بد تر نظر آرہا ہے بلکہ پوری دنیا میں ملت اسلامیہ بد ترین خمیازہ بھگت رہی ہے۔
ذرا سوچیے کہ دا رالقضا اس ملک میں کب سے قائم ہیں، ظاہر ہے کہ ان کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے، خود مسلم پرسنل لا بورڈ تین دہائیوں میں متعدد دارالقضا قائم کر چکا ہے اور کر رہا ہے، یہ دارا لقضا اپنے اپنے علاقوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں، اس طرح کی نازک صورت حال میں ایک پرانی اسکیم کو جاری رکھنے کے لیے میڈیا کا سہارا لینا، اپنے ہر ایجنڈے کا میڈیا میں اعلان کرنا کہاں کی بصیرت اور کیسی دانشمندی ہے، کیا اگر اس فیصلے کا تذکرہ نہ کیا جاتا کہ ہم دارالقضا ہر جگہ قائم کریں گے تو ان کا قیام عمل میں نہ آتا، یہ الگ بحث ہے کہ دارالقضا کی اصطلاح استعمال کی گئی تھی یا شرعی عدالتوں کی، اگر شرعی عدالتوں کی اصطلاح استعمال کی گئی تھی تو یہ اور بھی بے بصیرتی کی دلیل ہے، فسطائی طاقتوں اور اس کے غلام میڈیا کو بہانہ مل گیا، ایک ہفتہ سے یہی موضوع چل رہا ہے، اس کا سہارا لے کر پورے ملک میں مسلمانوں کو علحدگی پسند اور سیکولرزم کے دشمن اور وطن کے دشمن ثابت کرنے کی مہم جاری ہے، ان بحثوں کا ذریعہ ان کا مقصد پورا ہو رہا ہے، ان کے لوگ متحد ہو رہے ہیں، ذرا سوچیے کیا جلتی آگ پر ہم نے تیل چھڑکنے کا کام نہیں کیا، کیا بیٹھے بٹھائے ہم نے بحث کا موضوع نہیں دے دیا، ضرورت تھی کہ ہم خاموشی سے یہ کام کرتے اور کرنا چاہیے، جو پہلے سے موجود ہیں انھیں فعال بنانا چاہیے، ان کی کارکردگی پر غور کرنا چاہیے، عوام کو ان میں اپنے مقدمات لے جانے کی ترغیب دینا چاہیے اور اس صورت حال کو بھی زیر بحث لانا چاہیے کہ بسا اوقات فریقین عالم دیں ہوتے ہیں، دار القضا کے بانی و سرپرست ہوتے ہیں مگر وہ اپنے آپسی تنازعات کو حل کرنے کے لیے دارالقضا کا رخ نہیں کرتے بلکہ سیکولر عدالتوں میں جاتے ہیں، تو پھر عوام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، بہرحال اس سے قطع نظر اب لوگ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ بھائی یہ شرعی عدالت نہیں کاؤنسلنگ سینٹر ہیں، مگر لوگ خود اتنی موٹی سی بات نہیں سمجھ رہے ہیں کہ جو جاگ رہا ہو اسے جگانا ممکن نہیں، جگایا اس کو جاتا ہے، جو سو رہا ہو وہ جانتے ہیں کہ انگریزی دور میں قاضی کا فیصلہ تسلیم کیا جاتا تھا، پھر اس کا یہ حق ختم کر دیا گیا، مگر اپنے مذہب کے مطابق اپنے مسائل حل کرنے اور فیصلہ کرانے کا حق ہندوستان کے تمام باشندوں کو حاصل ہے، ان کو یہ بھی معلوم ہے اور خوب معلوم ہے کہ ان دار القضا کو شرعی عدالت نہیں کہا جا سکتا، یہ کورٹ کے متوازی نہیں ہو سکتیں، اس لیے کہ ان کے پیچھے کوئی قوت نافذہ نہیں ہے، وہ سب جانتے ہیں تو پھر صفائی دینے سے کیا حاصل، ان کا جو مقصد تھا وہ پورا ہو رہا ہے اور وہ اپنے کام میں مست ومگن ہیں، سوچیے کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک چھوٹی سی میٹنگ سے متعلق خبر مقررہ تاریخ سے ایک ماہ قبل ہی میڈیا کی زینت بن گئی، الگ الگ بیانات آنے لگے اور پھر سوشل میڈیا پر موجود ہماری پوشاک میں سنگھ کے ہر کاروں نے آگ لگانے کا جو کام کیا اس سے اگر اب بھی ہمیں تنبہ نہ ہوا تو ماتم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں!
*رہی بات ان حالات میں کیا کیا جائے تو ہمارے ایک دوست کی یہ بات ہمیں بڑی اچھی لگی کہ ’’مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کے عنوان پرگفتگو فسادات کے بعد کی جانچ کمیٹیوں اور کمیشن سے زیادہ کچھ نہیں‘‘ کیوں کہ اب تک ہم نے اس سلسلہ میں صرف رپورٹ پیش کی ہے، لفاظی کی ہے، جلسے کیے ہیں، ہنگامہ کیا ہے، دوسروں پر بھروسہ کیا ہے، دوسروں کے دست نگر رہے ہیں، اس تکثیری ملک میں خاص طور پر صرف اپنی کمیونٹی کا ذکر وہ بھی سیاست میں زہر بیچنے کے اعلان و اشتہار سے کم نہیں مگر ہم نے بار بار یہ کام بھی کیا ہے، ضرورت ہے کہ اچھی طرح سوچیں، منصوبہ بندی کریں، حکمت عملی تیار کریں اور سب کو ساتھ لے کر یعنی کسی ایک کے نام کی غلامی کا طوق نہ پہن کر اپنے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں، اس سلسلہ میں ہم بار بار ندائے اعتدال کے صفحات پر اظہار خیال کر چکے ہیں، اس لیے یہاں پھر ان تفصیلات کا ذکر تحصیل حاصل کے سوا کچھ نہیں، فی الحال تو جو صورت حال ہے وہ ہمیں خاموش رہنے، خاموشی کے ساتھ اپنے منصوبوں پر عمل کرنے اور اپنے مستقبل کی تعمیر کے لیے متحدہ لائحہ عمل تیار کرنے کی دعوت دے رہی ہے ہم اپنے گریبان میں جھانکیں کہ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟ یہاں ہم اپنے ایک دوست ڈاکٹر عمیر انس ندوی کی فیس بک پوسٹ نقل کرکے اپنی گفتگو ختم کرتے ہیں جو انھوں نے ۱۳ جولائی کو لکھا، اس میں ہمارے مسائل کے حل کے لئے بڑے مفید اشارے موجود ہیں:*
’’جماعت اسلامی کا تنظیمی طریقہ، مولانا سلمان اور مولانا سجاد کی پرجوش روح، پرسنل لا بورڈ جیسا اتحادی فارمولہ، دیوبند کی دینی حمیت، ندوۃ العلماء کا اعتدال، سرسید کا جذبہ تعلیم، اقبال اور مودودی کے سوچنے کا طرز، اردوغان جیسی متبادل حل دینے کی صلاحیت، اربکان کی طرح غالب قوت کو سیاسی طریقوں سے شکست دینے کی حکمت، اخوانیوں جیسا آزمائشوں میں ٹکے رہنے کا ہنر، تبلیغیوں جیسا اصلاح حال کا جنون، شبلی جیسی خود احتسابی کی فکر، مولانا آزاد کی سیاسی دور اندیشی جیسی صفات کو ایک جگہ جمع کرنا اور اپنی اپنی تنظیموں میں پیدا کرنا ہی ہمارے مسائل کا واحد حل ہے۔
ملت اسلامیہ کی بہترین خوبیاں صرف اس لیئے بے نفع ہو جاتی ہیں کیوں کہ وہ سب کسی بھی مقام پر آکر ایک دوسرے سے سنگم نہیں کرتیں، اختلاف کے ساتھ کہیں توافق بھی ہونا چاہیے، معتدد ریل گاڑیاں الگ الگ چلنے کے باوجود مختلف بڑے اسٹیشنوں پر مسافروں کو ایک جگہ جمع بھی کرتی ہیں‘‘۔
ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی
مدیر: ماہنامہ ندائے اعتدال، علی گڑھ
صدر: کاروانِ امن و انصاف
***