*میڈیائی علماءاور ملت کی رسوائی* فرح فیص اور مولانا اعجاز ارشد میں چھڑپ نہایت افسوناک _اسماعیل کرخی_

۱۷ جولائی برروز منگل لائیو شو میں مولانا اعجاز ارشد نے فرح فیض کو تین تھپڑ بے شرمی کے ساتھ رسید کردیئے، در اصل اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ جولائی ۲۰۱۷ میں اعجاز قاسمی صاحب زی نیوز پر ملت کو خوب رسوا کراچکے ہیں، یہ نہایت جذباتی اور بدتمیز ہیں، پہلے ۲۰۱۷ میں انہیں بلا کر بھانپا گیا یہ اُس وقت بھی عنبر جعفری کے ساتھ گالی گلوج پر اتر آے، پھر لائیو شو سے انہیں بھگا دیا گیا، در اصل میڈیائی دجال اسی لئے ایسے نام نہاد مولویوں کو بلاتے ہیں جو جذباتی اور نہایت بدتمیز ہوں، پھر جب اینکرس انہیں خوب گرماتے ہیں انہیں بری طرح اپنے اوٹ پٹانگ سوالوں اور تبصروں سے گھیرتے ہیں تو یہ اپنی اصلیت پر اتر آتے ہیں، کبھی گالی گلوج کی جاتی ہے تو کبھی ہاتھا پائی.
۲۰۱۷ کی بحث یہ تھی کہ کیا وندے ماترم کہنے پر کسی مسلمان پر کفر کا فتوی جاری کیا جاے گا، بحث کی شروعات ہی میں پتا چل جاتا ہے کہ یہ منصوبہ بند سازشی موضوع تھا، قاسمی صاحب سیدھا سادھا ٹیکنیکل جواب دے کر یہ سوال اُٹھانے کے بجاے کہ کیا کسی کو وندے ماتر نہ کہنے پر قتل کردیا جاے گا؟ خوب گرم ہوگے اور اینکر نے انہیں مزید تپا دیا، بحث میں ایک صاحب نے ایک خاتون کے ساتھ بدتمیزی کردی جس پر اینکر نے یہ کہا کہ بدتمیزی کرنی ہو تو مدرسوں میں جاؤ، بس پھر کیا تھا اعجاز صاحب آگ بگولہ ہوگئے، اور زمیں آسمان ایک کردیا زبردست تقریر کرڈالی، اور اینکر کو بے حیا بے شرم، نوکری کرنے والی، آر ایس ایس کی ایجنٹ، ایمان فروش اور جانے کیا کیا کہہ ڈالا جسکی وجہ سے انہیں بالجبر باہر نکال دیا گیا اور ساری بحث سمیٹ کر میڈیا نے یہ ثابت کردیا کہ واقعی علما ایسے ہی بدتمیز ہوتے ہیں اور اینکر نے کہا بھی کہ یہ لوگ گھر کی بیویوں کے ساتھ کیسے رہتے ہونگے؟ ان مولاناؤں نے ہی اسلام کو بدنام کیا ہے، کیا امارتِ شرعیہ یہی اسلام نافذ کرے گی؟ گو ہر طرح کی زہر افشانی کی گئی،. اینکرز ہر مرتبہ اعجاز صاحب اور ان جیسے میڈیائی مولویوں کو خوب گرماتے ہیں اور پھر یہ صاحبان وہ کچھ کہہ اور کر جاتے ہیں جس سے ساری اُمت رسوا ہوتی ہے..
اس مرتبہ بھی بحث تین طلاق سے شروع ہوکر اعجاز صاحب کے تین تماچوں پر ختم ہوگئی، اور میڈیا نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ علما ایسے ہی ہوتے ہیں. یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کرایا جارہے، سب سے پہلے تو مسلمان عوام کو علما سے بدظن کرانے کے لئے ایسے مولویوں کو بلایا جاتا ہے جو عالم دین نہیں دین کو بدنام کرنے والے دین کے وہ دعوے دار ترجمان بن کر شہرت کی غرض سے میڈیا پر آتے ہیں جو صرف مسلمانوں کو بدنام کرسکتے ہیں، انکی نسبت ذرا بلند ہوتی ہے کوئی شاہی امام کے لقب کے ساتھ تو کوئی علماء کونسل کے صدر کی حیثیت یا اُسکے رکن کی صورت میں نظر آتا ہے، اسی طرح کبھی مسلم پرسنل لا بورڈ کے کسی ایسے رکن کو بلالیا جاتا ہے جسے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کیا بورڈ میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں؟ صرف یہی نہیں بلکہ ہندوستان کے بڑے بڑے مدارس، مکاتب فکر اور عظیم تحریکات کی طرف نسبت کرنے والوں کو بلا کر بھی اسلام کو بدنام کیا جاتا ہے،.
قاسمی صاحب عورت کو تھپڑ مارنے کے الزام میں گرفتار ہوچکے ہیں، چونکہ یہ معاملہ اُنکا ذاتی معاملہ ہے، وہ جس طرح بھی خود کو عدالت میں بے گناہ ثابت کریں یہ اُنکی ذمہ داری ہے، البتہ مسلم پرسنل لا کے پاس اب بھی وقت ہے کہ اپنی تطہیر کی طرف جلد از جلد توجہ دے، اس طرح کے مولویوں کے سلسلہ میں تمام مسلم تحریکیں سنجیدگی سے غور کریں، چونکہ قاسمی صاحب پرسنل لا کے ممبر بھی ہیں اس لئے بورڈ نے اعلان کردیا ہے کہ موصوف بورڈ کے ترجمان نہیں ہیں نہ ہی انہیں بورڈ کی طرف سے میڈیا پر بھیجا جاتا ہے، موصوف نے میڈیا پر جو حرکت کی وہ قابلِ مذمت ہے، بار بار کے تلخ تجربات کے بعد بھی میڈیا پر آنے سے باز نہ آنا کیا ظاہر کرتا ہے؟ ہمیشہ کی طرح اس بحث میں بھی سوامی اگنی ویش کا مسئلہ دب گیا اور قاسمی صاحب کو تمام لوگوں نے مل کر خوب پتایا اور جب وہ اندر سے بالکل گرم ہوکر کھڑے ہوے تو فرح فیض بھی کھڑی ہوگئیں قریب تھا کہ فرح فیض موصوف کو مارتیں لیکن اُس سے پہلے ہی اعجاز صاحب نے اُنہیں تین تماچے رسید کردیئے،.
در اصل الیکشن قریب ہے اور بی جے پی کے پاس کوئی لفظ ایسا نہیں بچاہے جسکا سہارا لیکر الیکشن میں کھڑی ہوسکے، اب صرف رام راج کا نعرہ ہی بچا ہے، دوسری طرف سنگھیوں کو چھوڑ کر تمام ہندوستانیوں کے پاس بڑے بڑے مسائل ہیں لیکن افسوس کے وہ اُٹھا نہیں رہے،. اور اب میڈیا کو اگلے الیکشن تک ایک ایسا موضوع مل گیا ہے کہ وہ بی جے پی کی ناکامی اور سنگھیوں کی دہشت گردی کو چھپا سکے، اور بی جے پی اور میڈیا مل کر علما اور مدارس کے خلاف زبردست پرپگنڈہ کریں،.
اسماعیل کرخی ندوی