ہمارے اکابر بڑی تنظیمیں، بڑے مدارس کےذمہ داران اس طرح کے واقعات کے بنیادی اسباب پر غور کریں، آخر کیوں ہمارے بچے ہزاروں میل دور کے مدرسوں میں جاتے ہیں، کون ان کو لے جاتا ہے اور کیوں؟ …..

محمود دریابادی

الحمدللہ یہ جان کر اطمینان ہوا کہ دھنباد میں پولیس کے ذریعے پکڑے گئے مدرسہ جانے والے بچے جمیعۃ علماء کی کوششوں سے چھوٹ گئے ہیں،اس طرح کا واقعہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہے غالبا پچھلے یااس سے پہلے کے سال بھی ایسا ہوچکا ہے،کیااب بھی وقت نہیں ایا ہے کہ ہمارے اکابر بڑی تنظیمیں، بڑے مدارس کےذمہ داران اس طرح کے واقعات کے بنیادی اسباب پر غور کریں، آخر کیوں ہمارے بچے ہزاروں میل دور کے مدرسوں میں جاتے ہیں، کون ان کو لے جاتا ہے اور کیوں؟ ….. کیا جن علاقوں کےیہ بچے ہوتے ہیں وہان مدارس نہیں ہیں، جہاں یہ بچے جارہے تھے ان کو دور دراز سے بچے منگوانے کی ضرورت کیوں پڑی؟ کیاوہاں مسلمانوں کی ابادی نہیں ہے؟ اگرہے تو مقامی بچے کیوں نہیں ان مدرسوں میں داخلہ لیتے؟ اگر دھنباد کے بچوں کو پڑھانا ہے تو تلنگانہ میں مدرسہ قائم کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا دھنباد میں مدارس اسلامیہ نہیں ہیں؟ کیاوہاں کے مقامی مدارس نے ان بچوں کو پڑھانے سے انکار کیا ہے؟ان جیسے بے شمار سوالات ہیں جن پرفوری طور پر غور ہونا چاۂیئے ـہمیں حکومت کی مداخلت سے پہلے تمام مدارس کے لئے از خودضابطہ اخلاق مرتب کرنا چاہیے جس پر عمل کے لئے تمام ہندوستانی مدرسوں کومجبور کیاجائے، اگر کوئی مدرسہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تواس کا بائکاٹ کیا جائے، اس کو عوامی طورپر بے نقاب کیا جائے تاکہ اس کا عوامی چندہ بند ہوجائے ـاس ضابطہ اخلاق میں ہرمدرسے کوپابند کیا جائےکہ اپنےیہاں مقیم طلبا میں کم ازکم نصف یا دوتہائی تعداد مقامی یا قرب وجوار کے بچوں کی رکھیں، داخلے کے لئےآنے والے بچوں میں مقامی کو ترجیح دی جائے، دور دراز کے جو بچے آتےہیں ان سے پوچھا جائے کہ مقامی مدرسے میں کیوں داخلہ نہیں لیا، اگر پتہ چلتا ہے کہ کسی مقامی بچے کو داخل کرنے سے مدرسے نے انکار کیا ہے تو اس سے جواب طلب کیا جائے ـمدرسے کاباضابطہ رجسٹریش ہو، شوری ہو جس میں کم از کم تین مقامی ممبر ہوں، مقامی وقرب جوار کے لوگوں کو مدرسے کاتعاون کرنے کی ترغیب دی جائے کوشش کی جائے کہ دو روپیہ پانچ روپیہ ہی سہی ان کاتعاون ضرور شامل رہے، اس سے مقامی لوگوں کی ہمدردی ودلچسپی مدرسے کے ساتھ قائم رہتی ہے، خدانخواستہ اگر خراب حالات پیش ائے تومقامی لوگ ہی مدرسے کے دفاع کےلئے سب سے پہلے آگے آتے ہیں، ـحسابات کی شفافی، اساتذہ کی تنخواہیں، طلباء کے لئے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق قیام وطعام کے انتظامات، آنے والے مہمانوں کا ریکارڈ بلکہ کلوز سرکٹ کیمرے بھی آج کی ضرورت بن گئے ہیں ـان کے علاوہ اور بھی کئی ضابطے شامل کئے جاسکتے ہیں ـپورے ملک سے اکیس لوگوں پر مشتمل ایک ضابطہ اخلاق کمیٹی بنائی جائے جو وقتا فوقتا مدارس کا دورہ کرکے جائزہ لیتی رہے اگر کہیں بھی خلاف ورزی دکھائی دے تو فورا ایکشن لیا جاے،یہ سب جانتے ہیں کہ مدرسوں کے تعلق سے حکومتوں کی نیت ٹھیک نہیں ہے اس لئے ہمیں اپنے طور بیدار بھی رہنا چاہیے اور شفّاف بھی ـ