تعلیم اور تعلیمی اداروں کے تئیں حکومت کے فیصلوں کی منطق ؟مومن فہیم احمد عبدالباری  لیکچرر صمدیہ ہائی اسکول و جونیر کالج،بھیونڈی 


برسرِ اقتدار جماعت جملہ شعبہ ہائے زندگی میں جو فیصلے صادر کررہی ہے اور ان فیصلوں کے جواز میں جو منطق پیش کی جاتی ہے اس پر ایک ذی شعور اور عقلیت پسند انسان سوائے سر پیٹنے کے اور کیا کرسکتا ہے؟ آئیے ہم تعلیمی شعبوں میں اصلاحات کے نام پر مرکزی اور ریاستی حکومت کے ذریعے کیے چند فیصلوں پر نظر ڈالیں ۔ گذشتہ دنوں وزارت انسانی وسائل نے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ تعلیمی سال سے میڈیکل کے لیے نیٹ اور انجینئرنگ کے لیے جے ای ای کے امتحانات اب سال میں دو مرتبہ ہوں گے۔ بظاہر یہ فیصلہ طلبہ کے حق میں نظر آتا ہے لیکن شاید یہ حکومت کی اضافی آمدنی کے علاوہ اور کچھ بھی ثابت نہ ہو۔ اس فیصلے کا مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ طلبہ جو کسی وجہ سے رینکنگ کی بناء پر اچھے کالجوں میں داخلے سے قاصر ہوں اور دوبارہ امتحان دینے کے خواہشمند ہوں وہ ایک ہی سال میں دو مرتبہ امتحان دے کر اپنا اسکور مزید بہتر کرسکتے ہیں۔ لیکن ظاہر سی بات ہے کہ میڈیکل اور انجینئرنگ کی نشستوں میں اضافہ نہیں ہوگا جس کا مطلب ہے طلبہ کے درمیان مسابقت میں اضافہ ہوگا۔ نشستوں کے لحاظ سے اتنے ہی امیدواروں کو داخلہ دیا جائے گا جتنے پہلے داخلے کے اہل ہوتے تھے لیکن جو طلبہ دوبار کوششوں کے باوجود بھی اپنی پسند کے کالجوں میں داخلہ حاصل نہیں کرپائیں گے وہ مزید نفسیاتی مسائل کا شکار ہوں گے اور یقیناً ایسے طلبہ کی تعداد زیادہ ہوگی۔ اس کے علاوہ ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کی ایک لاکھ سے کچھ زائد سیٹس کے لیے نیٹ امتحان میں شریک ہونے والے طلبہ کی تعداد تیرہ سے چودہ لاکھ کے آس پاس ہوتی ہے اوسطاً ایک ہزار روپئے فیس (اوپن اور اوبی سی سے چودہ سو جبکہ دیگر پسماندہ کے لیے سات سو پچاس روپئے)بھی سمجھ لی جائے تو یہ رقم کتنی ہوگی اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اب اس فیصلے سے نشستوں کی تعداد میں تو کوئی اضافہ نہیں ہورہا اور نہ ہی کسی اضافی امیدوار کا فائدہ ہونا ہے لیکن حکومت کی آمدنی یقیناً بڑھے گی۔ طلبہ کا نفسیاتی و ذہنی نقصان ہوگا سو الگ۔ مزید اس فیصلے سے دوسرے کورسیس میں داخلوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔
گذشتہ دنوں حکومت مہاراشٹر نے اعلان کیا کہ وہ حکومتی اسکولوں کو انٹر نیشنل معیار کا بنانے کے لیے ’’مہاراشٹر انٹرنیشنل ایجوکیشن بورڈ(ایم آئی ای بی) کا قیام کرے گی جو مہاراشٹر اور دیگر ریاستوں کے نصاب کو بین الاقوامی کیمبرج انٹرنیشنل بورڈ کی طرز پر ترتیب دے گا۔ اس ایجوکیشن بورڈ کا سربراہ اسکول ایجوکیشن منسٹر ہوگا۔ ہمارے ملک میں اکثریت حکومتی اسکولوں کی حالت کیا ہے اس ہم تمام بخوبی واقف ہیں ان اسکولوں میں پڑھانے والے ٹیچرس کی تعلیمی قابلیت کے کئی مظاہرے ہم نے سوشل میڈیا کے ذریعے دیکھے ہیں۔ اساتذہ کی نصاب کی کمیٹی اور نئے نصاب کے تربیتی ورکشاپ کی صورتحال سے سبھی واقف ہیں ۔ اساتذہ کے نزدیک تدریسی عمل ہی وہ کام ہے جس کی سب سے کم اہمیت ہے ورنہ حکومت کے آ ئے دن نئے فرمانوں نے اساتذہ کو استاد کم کلرک زیادہ بنا رکھا ہے۔ اب یہی اساتذہ اگر انٹرنیشنل نصاب پڑھانے کے لیے معمور کیے جائیں گے تو نصاب کا کیا بنے گا ؟ اور طلبہ کا کیا ہوگا ؟ کیونکہ یہی اساتذہ ہیں جو موجودہ نصاب کی تدریس کے ذمہ دار ہیں جس کے نتائج عیاں ہیں تو ہم ان سے یہ توقعات کیسے رکھیں کہ یہ بین الاقوامی نصاب کو بہتر پڑھا لیں گے۔ مزید حکومت نے اس کے لیے اور کیا انتظامات کیے ہیں اس کی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ حکومت تعلیمی نظام میں در آئی دشواریوں اور خامیوں کو دور کرنے کی کوشش نہیں کررہی ہے بلکہ نئے نئے خیالات کے ساتھ لیپا پوتی میں مصروف ہے۔ اگر ایمانداری سے کام کیا جائے تو ہمارے پاس دہلی حکومت کی مثال موجود ہے کہ کس طرح کیجریوال ،منیش سیسودیا اور ان کے رفقاء نے دہلی کے میونسپل اسکولوں کی صورت بدل دی۔
تعلیمی اداروں کی کارکردگی کی بنیاد پر رینکنگ دینے کا معاملہ ہمارے علم میں ہے جن میں اسکولوں اور کالیجز کی سطح پر ISO اور NAAC جیسے ادارے مختلف عوامل کی بنیاد پر تعلیمی اداروں کو رینکنگ دیتے ہیں جو یقیناً ان ادراوں اور ان میں زیر تعلیم طلبہ اورانھیں پڑھانے والے اساتذہ کے لیے باعثِ فخرہے لیکن کیا آپ نے کبھی یہ سنا ہے کہ کوئی ادارہ جو ابھی قائم بھی نہیں ہوا ، صرف کاغذات پر ہے ، جہاں کوئی ڈگری نہ کوئی طالبعلم ، لیکن اسے بھارت کی وزارتِ انسانی وسائل کی جانب سے اعلیٰ ترین اداروں کی فہرست میں جگہ دی گئی۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ گذشتہ دنوں وزارتِ انسانی وسائل نے ملک کے چھ اہم ترین تعلیمی اداروں کو انسٹی ٹیوٹ آف پرومینینس (ملک کے نمایاں ادارے)کا درجہ دیا ۔ ان اداروں میں آئی آئی ٹی ۔دہلی، آئی آئی ٹی ۔ممبئی، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس(آئی آئی ایس سی) ، بٹس (برلا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ سائنس) پلانی کیمپس ، منی پال اکیڈمی آف ہائی ایجوکیشن کے ساتھ ریلائنس فاؤنڈیشن جیو انسٹی ٹیوٹ کا نام شامل ہے۔ ان اداروں میں آئی آئی ٹی (دہلی و ممبئی) ، آئی آئی ایس سی۔ یہ تینوں ادارے حکومت کے زیرِ انصرام جبکہ بٹس پلانی، منی پال اکیڈمی آف ہائی ایجوکیشن پرائیویٹ ادارے ہیں ان اداروں میں ریلائنس فاؤنڈیشن جیو انسٹی ٹیوٹ ابھی صرف کاغذات پر ہے جس کا ابھی تک باقاعدہ قیام بھی عمل میں نہیں آیا ہے جبکہ اسے قائم کیے بغیر ہی ملک کے نمایاں اداروں کی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے۔ کسی حکومت کے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں کھیلنے کی اس سے بڑی مثا ل اور کیا ہوسکتی ہے؟ وزارت کی جانب سے اس اعلان کے بعد چہارسو تنقیدوں اور سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کے بعد وزیر انسانی وسائل پرکاش جاوڈیکر کی جانب سے ایک وضاحتی خط جاری کیا گیا جو اس سے بھی زیادہ شرمناک ہے ۔ جس میں اپنے فیصلے کو جائز ٹہراتے ہوئے کہا کہ ان اداروں کے لیے قانون میں ایسی شق موجود ہے جس کے تحت جیو انسٹی ٹیوٹ کو یہ اعزاز بخشا گیا۔ خیر ان تنقیدوں کا حکومت کو پہلے سے اندازہ رہا ہوگا اور اس کے جوابات بھی وقت سے پہلے طے کرلیے گئیہوں گے۔اس تعلق سے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی پروفیسر عائشہ قدوائی کی یہ بات قابل غور ہے کہ ’’جیو انسٹی ٹیوٹ ابھی قائم ہونا باقی ہے اور حکومت اس کی عالمی معیار کے ادارے کے طور پر تشہیر کررہی ہے کیا ہم اس میں مفادات کا ٹکراؤ نہیں دیکھتے ۔‘‘ آئی آئی ایس سی بنگلور کے ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ ’’پرکاش جاوڈیکر یہ کیسے طے کرسکتے ہیں کہ جیو انسٹی ٹیوٹ، آئی آئی ٹی اور دیگر بہت ساے اہم اداروں سے زیادہ بہتر ہے ؟ اور کسی ادارے کو جو ابھی قائم ہونے کے عمل میں ہے کیسے اعلیٰ ترین اداروں کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے ؟‘‘۔
مذکورہ تینوں واقعات کا اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک طرف جہاں نصابی کتابوں میں زعفرانی مواد کی شمولیت کے ذریعے ملک کو زعفرانیت کے لبادے میں لپیٹا جارہا ہے وہیں دوسری طرف غیر محسوس طریقے سے تعلیم نظام کو نج کاری کی طرف تیزی سے ڈھکیلا جا رہا ہے۔ شاید ایسا اس لیے بھی ہورہا ہے کہ یہی وہ واحد شعبہ ہے جہاں سے حکومت کو کوئی ریٹرن حاصل نہیں ہوتا اور حکومت کی فکر بھی یہی ہے کہ جہاں سے کچھ حاصل نہیں وہاں سرمایہ کاری کیوں کی جائے ؟

9970809093
mominfahim@rediffmail.com