مولانا ندیم الواجدی
خبر ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ملک کے تمام شہروں اور قصبوں میں نئے دار القضاؤں کے قیام اور پرانے دار القضاؤں کو فعال بنانے پر غور کرنے والا ہے، ۱۵/ جولائی کو بورڈ کی مجلس عاملہ کی میٹنگ نئی دہلی میں منعقد ہوگی۔ امید ہے اس میٹنگ میں دار القضاء کے قیام پر غور وخوض ہوگا اور اس سلسلے میں مناسب منصوبہ بندی کی جائے گی، اس کی اطلاع دیتے ہوئے بورڈ کے ایک عہدہ دار نے لکھنؤ میں میڈیا کو بتلایا کہ بورڈ شرعی عدالتیں قائم کرنے جارہا ہے، اس کے بعد سے زعفرانی میڈیا میں ہنگامہ برپا ہے اور طرح طرح کے تبصرے کئے جارہے ہیں، یہ تأثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ شاید بورڈ متوازی عدالتیں قائم کرنے جارہا ہے، یہ بے بنیاد پروپیگنڈہ ہے، بورڈ مسلمانوں کے عائلی تنازعات کے حل کے لئے بہار، بنگال، اڑیسہ میں قائم دار القضاء کے سسٹم کو ملک بھر میں وسیع کرنا چاہتا ہے، اسے شرعی عدالت کہیں یا دارالقضاء، بورڈ کا مقصد ہندوستانی آئین کے دائرے میں رہ کر مسلمانوں کو شرعی رہ نمائی فراہم کرنا ہے۔
اسلام ایک جامع اور مکمل دین ہے ، اللہ تعالیٰ نے اسے آخری شریعت کے طور پر اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے ، جو لوگ اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کر لیتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس دین کو اپنی زندگی کے ہر گوشے میں داخل کر یں ، خواہ اس کا تعلق ان کی گھر یلو زندگی سے ہو یا گھر سے باہر کی زندگی سے، شریعت کا عمل دخل ہر جگہ مطلوب ہے ، قرآن کریم میں ہے: ’’اے ایمان والو تم اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو ‘‘(البقرۃ ۲۰۶) مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ پورے کے پورے اسلام میںداخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی احکام پر پوری طرح عمل کرو ، یہ نہ ہو کہ اسلام کے بعض احکام تو قبول کر لو ، اور بعض احکام قبول نہ کرو ، اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے ، کتاب وسنت میں اس نظام کی تمام تفصیلات موجود ہیں ، اس نظام میں عقائد عبادات ، معاملات ، معاشرت ، حکومت ، سیاست ،تجارت ،صنعت ، سب کچھ داخل ہے ، اس پورے نظام کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا ہی مکمل طور پر اسلام میں داخل ہونا ہے ، بعض لوگ اسلام کو صرف عبادت تک محدود سمجھتے ہیں ، معاملات اور معاشرت کو دین کا حصہ نہیں سمجھتے ، یہ ان کی بڑی غلط فہمی ہے ، اسلام نے جس طرح عبادات کے احکام کھول کھول کر بیان کئے ہیں ، اسی طرح معاملات اور معاشرت کے احکام بھی واضح طور پر بیان کئے ہیں ، اور ایک مسلمان کے لیے دونوں طرح کے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے ۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسی خوبیوں سے نوازا ہے جو اس کی دوسری مخلوق میں نہیں پائی جاتیں ، اور بہ تقاضائے بشریت اس میں کچھ کمزوریاں بھی رکھ دی ہیں قرآن کریم میں ان کمزوریوں کی نشان دہی کی گئی ہے ، مثلاً یہ کہ وہ کمزور ہے :(النساء۔۲۸) حریص ہے۔(المعارج:۱۹)جلد باز ہے :(بنی اسرائیل۔ ۱۱) ظالم اور جاہل ہے: (الاحزاب۔۷۲) جھگڑالوہے : (النحل:۴) جس انسان میں اتنی کمزوریا ں ہو ںکیا وہ نزاع واختلاف کے بغیر زندگی گزار سکتا ہے؟ یقیناً نہیں ! ان حالات میں جب کہ دو مسلمانوں کے درمیان کسی معاملے میں کوئی اختلاف واقع ہو تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کو خود ہی شریعت کی روشنی میں حل کرلیں ، اور اگر خود حل نہ کر سکیں تو شریعت کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق حل کرنے کی کوشش کریں ، یہ ہے وہ موقع جہاں اسلام کا نظام عدل اپنی خدمات پیش کر تا ہے ، ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر ان خدمات سے مستفیض ہو ، قرآن کریم نے اس سلسلے میں واضح ہدایات دی ہیں، ایک جگہ فرمایا :’’اے ایمان والو ، اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو ، اور تم میں سے جو حاکم ہوں ان کی اطاعت کرو ، پھر اگر جھگڑ پڑوکسی چیز میں تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹادو ‘‘۔(النساء:۵۹)
اس آیت میں تین اطاعتوں کا حکم دیا گیا ہے ، اللہ کی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اولو الامر کی ، بہ ظاہر تو یہ تین اطاعتیں ہیں ، لیکن در حقیقت ان تمام اطاعتوں سے مقصود حاکم حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے ، شریعت نے مسلمانوں کو جن احکام کا پابند قرار دیا ہے ان میں سے بعض تو وہ ہیں جن کی صراحت خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کی ہے ، جیسے ، توحید ، رسالت ، آخرت ، حشر نشر ، قیامت ، نماز ، روزہ حج ، زکوٰۃ وغیرہ ، ان امور میںاگر کوئی شخص قرآنی تعلیمات پر عمل کرتا ہے تو وہ براہ راست اور بلا واسطہ اطاعت خداوندی کے حکم پر عمل کرتا ہے ، کچھ احکام وہ ہیں جو قرآن کریم میں مجمل یا مبہم طور پر بیان کئے گئے ہیں ، سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں ان احکام کی تشریحات اور تفصیلات ہیں ، ان احکام کی اطاعت بہ ظاہر سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے ، لیکن درحقیقت یہ بھی اللہ ہی کی اطاعت ہے ، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں وہی منشأ الٰہی ہو تا ہے ، اسی کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے :’’اور نہ آپ اپنی خواہش نفس سے باتیں بناتے ہیں ان کا ارشاد صرف وحی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے‘‘۔(النجم: ۳،۴)
کچھ احکام وہ ہیں جو کتاب وسنت میں صراحت کے ساتھ موجود نہیں ہیں ، یا تو وہ نہایت اجمال واختصار کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں ، یا ان کے سلسلے میں متضاد روایات ملتی ہیں جن پر عمل کرنا عام آدمی کے لئے سخت دشوار ہے ، ایسی صورت میں فقہاء ومجتہدین کتاب وسنت کے اجمال میں غور وفکر کر کے یا متضاد روایات میں تطبیق دے کر ، اپنی اجتہادی بصیرت سے کتاب وسنت میں موجود نظائر پر قیاس کر کے احکام مرتب کرتے ہیں ، ان احکام کی اطاعت بھی ضروری ہے ، بہ ظاہر یہ نہ اطاعت خداوندی ہے ، اور نہ اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے بلکہ انسانوں کی اطاعت ہے ، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے ان حضرات نے جو احکام مرتب کئے ہیں وہ کتاب وسنت سے مستفاد ہیں اس لئے ان کی نوعیت بھی عمل کے باب میں وہی ہے جو کتاب وسنت کے احکام کی ہے ، اسی لئے قرآن کریم نے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے ساتھ اولوالامر کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے ، اولو الامر لغت میں ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کے ہاتھ میں کسی چیز کا انتظام وانصرام ہو ، اسی لئے مفسرین صحابہؓ وتابعین ؒحضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ ، مجاہد ؒ اور حسن بصری ؒ وغیرہ نے علماء اور فقہاء کو اولو الامر کا مصداق قرار دیا ہے ، اس اعتبار سے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب ہیں اور دین کا نظام ان کے ہاتھ میں ہے ۔
ان تین اطاعتوں کا حاصل یہ ہے کہ مسلمان اپنی عملی زندگی میں ان تمام احکام کا پابند ہو جو اللہ ،اس کے رسول ، اور اولو الامر کی طرف سے جاری کئے گئے ہوں ، ان احکام کی خلاف ورزی کی صورت میں مسلمان سزا کا مستحق ہے ، اصل سزا تو اللہ کے یہاں ملنی ہے تاہم بعض اوقات کچھ خلاف ورزیوں اور حکم عدولیوں پر حدود وقصاص اور تعزیرات کی صورت میں دنیا کے اندر بھی سزا ملتی ہے ، لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کسی جگہ اقتدار کی زمام کار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو ، اور وہاں شریعت کا قانون نافذ ہو ، ہندوستان جیسے ملکوں کی نوعیت دوسری ہے ، یہاں مسلمان اقتدار میں اس حیثیت سے شریک نہیںہیں کہ وہ خدا کا عطا کر دہ قانون نافذ کر سکیں ، یہ ایک جمہوری ملک ہے جس کا اپنا آئینی ڈھانچہ ہے ، ان امور میں جن کا تعلق ملک کے نظم ونسق کی پامالی سے ہو جیسے قتل ، چوری ، فتنہ وفساد اور بد دیانتی وغیرہ جیسے جرائم میں مسلمان ملکی آئین کے پابند ہیں ، البتہ جن امور کا تعلق ان کی ذاتی زندگی سے ہو جیسے نکاح طلاق، ہبہ ، وراثت ، وقف وغیرہ ان میں مسلمان ہر حالت میں شریعت کے پابند ہوں گے، خواہ وہ کسی مسلم ملک میں رہتے ہوں یا غیر مسلم ملک میں اقلیت کی حیثیت سے رہتے ہوں، اگر اس طرح کے معاملات میں مسلمانوں کے اندر کوئی اختلاف پیدا ہو جائے تو انہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹادیں ، یہ ایک لطیف اور بامعنی تعبیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس اختلاف کو شریعت کی روشنی میں حل کریں۔
یوں تو شریعت کا مکمل نطام کتاب وسنت میں موجود ہے ،اور فقہاء کی کتابیں اس نظام کی مکمل تشریح کرتی ہیں ، لیکن ہر شخص اس نظام تک رسائی حاصل نہیںکر سکتا اور نہ وہ کتاب وسنت کی روشنی میں از خود کوئی شرعی حل تلاش کر سکتا ہے ، اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے حدود ِ عمل میں شرعی ضابطوںکے تحت نظام عدل وجود میں لائیں ، اور تمام لوگ اس نظام سے اس طرح وابستہ ہوں کہ ضرورت پڑنے پر اس سے استفادہ کر سکیں ، اس نظام عد ل کا دوسرا نام قضاء ہے شرعی عدالتیں یا شرعی پنچایتیں اور دارالقضاء اسی نظام کے حصول کے لئے قائم کئے جاتے ہیں ۔
اسلام میں قضاء کی کتنی اہمیت ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسے فرض کفایہ قرار دیا گیا ہے ، یعنی اگر کچھ افراد یہ نظام قائم کر دیں تو باقی تمام لوگوں کے ذمے سے اس کی فرضیت ساقط ہو جائے گی ورنہ تمام لوگ گناہ گار ہوں گے نظام قضاء اس لئے بھی اہم ہے کہ اس کے ذریعہ دفع ظلم ، اور قیام عدل جیسے امور انجام دئیے جاتے ہیں ، جن کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ، کتاب وسنت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی کتنی اہمیت ہے اس کااندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ، قرآن کریم میں مسلمانوں کی من جملہ خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہیں ، نظام قضا ء بھی اسی فریضے کا ایک حصہ ہے ۔حضرت عمر فاروقؓ کے اس رشاد گرامی نے قضاء کی اہمیت پوری طرح واضح کردی ہے، فرماتے ہیں: القضاء فریضۃ محکمۃ وسنۃ متبعۃ۔’’قضاء مضبوط فریضہ اور قابل تقلید سنت ہے‘‘ اسی لیے فقہائے کرام نے اپنی کتابوں میں نظام قضاء کے قیام پر بہت زیادہ زور دیا ہے یہاں تک کہ ان ممالک میں بھی جہاں اسلامی حکومتیں موجود نہیں ہیں، صاحب فتح القدیر فرماتے ہیں’’اگر سلطان نہ ہو اور نہ کوئی ایسی شخصیت ہو جس کی طرف سے قاضی وغیرہ مقرر کئے جاتے ہوں جیسا کہ بعض ان علاقوں کا حال ہے جہاں کفار کا غلبہ ہے جیسے قرطبہ، ایسے حالات میں مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی ایک شخص پر متفق ہوجائیں اور وہ شخص ان کے اوپر کسی قاضی کا تقرر کردے یا خود ہی فریضۂ قضاء انجام دے۔(فتح القدیر: ۴/۷۲۴)
نظام قضا ء سابقہ امتوں میں بھی موجود رہا ہے ، حضرات انبیاء کرام احکام الٰہی کے پیغام بر ہی نہیں ہو تے تھے بلکہ قاضی اور حکم بھی ہوا کرتے تھے ، سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی حیات مبارکہ میں قاضی اور حکم تھے ، قرآن کریم نے آپ کے اس منصب کی طرف اس طرح اشارہ فرمایا ہے : ’’پھر قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ ایمان والے نہیں ہوں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ آپس میں ان کے درمیان جو جھگڑا واقع ہو اس میں آپ سے تصفیہ کرا دیں پھر آپ کے اس تصفیہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ محسوس کریں اور اسے پورے طور پر تسلیم کرلیں ‘‘۔(النساء:۶۵)
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف امت کے رہبر اور مصلح ہی نہیں تھے بلکہ وہ حاکم بھی تھے ، اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنا قانون نازل فرمایا اور یہ حکم دیا کہ آپ مسلمانوں کے مقدمات اسی قانون کے مطابق فیصل کریں : ’’ہم نے آپ پر کتاب کو حق کے ساتھ نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اسی طرح فیصلہ کریں جس طرح اللہ آپ کو دکھلائے اور سمجھائے ‘‘۔(النساء۔۱۰۵)
حضرات مفسرین نے لکھا ہے کہ قرآن کریم کے ان ارشادات پر عمل سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے ، بلکہ آپ کے بعد بھی آپ کی شریعت مطہرہ پر عمل کرنا ضروری ہے ، اس طرح یہ حکم قیامت تک کے لئے ہے کہ مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو اپنا حکَم بنائیں بالواسطہ طور پر اگر شریعت کے احکام سمجھنے کی صلاحیت ہو یا علماء اور فقہاء کے واسطے سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے نائب اور جانشین ہیں ۔
اس آیت کے ضمن میں کچھ اور امور بھی قابل غور ہیں ایک تو یہ کہ شریعت کے فیصلے پر مسلمانوں کو مطمئن ہونا چاہئیے ، وہ شخص صحیح معنی میں مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جو شریعت کا فیصلہ سننے کے بعد اس پر اپنی رضا مندی کا اظہار نہ کر ے ،دوسرے اس آیت سے یہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ جب بھی کسی معاملے میں اختلاف کی نوبت آئے تو اس اختلاف کو ختم کرنے کے لئے شریعت کی طرف رجوع کرے ،تیسری اہم بات یہ ہے کہ اس آیت سے پہلے جس میں تین اطاعتوں کا ذکر ہے قرآن کریم نے عدل وانصاف پر بڑا زور دیا ہے ، فرمایا :
’’بیشک تم کو اللہ تعالیٰ اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ اہل حقوق کو ان کے حقوق پہنچا دیا کرو اور یہ کہ جب لوگوں کا تصفیہ کیا کرو تو عدل سے تصفیہ کیا کرو‘‘۔(النساء ۵۸)
اسلام کے نظام عدل کے لئے یہ آیت بنیادی اہمیت رکھتی ہے ، یہاں لفظ امانۃ بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ امانت صرف یہی نہیں ہے کہ کسی کا مال کسی دوسرے کے پاس رکھا ہو ، بلکہ امانت کی کچھ اور بھی قسمیں اور نوعیتیں ہیں ، ان میں منصب اور عہدے بھی داخل ہیں ، اور ان عہدوں سے تعلق رکھنے والے امور بھی امانت ہی ہیں، اس آیت کے دوسرے جزء سے بھی اس کی وضاحت ہو تی ہے کہ ’’جب تم لوگوں کے باہمی جھگڑے فیصل کرنے لگو تو عدل وانصاف کے ساتھ فیصلے کیا کرو ‘‘ صاف ظاہر ہے اس حکم کے مخاطب امراء وحکام ہیں یا وہ تمام لوگ ہیں جن کو کسی معاملے میں حکم بنایا گیا ہو ، عام لوگ بھی مخاطب ہو سکتے ہیں اور علماء بھی ، غرض یہ کہ ہر وہ شخص عدل وانصاف کا پابند ہے جس کو کسی جھگڑے میں ثالث مقرر کیا گیا ہو یا کسی معاملے میں فیصل بنایا گیا ہو ، قرآن کریم نے بین الناس (لوگوں کے درمیان) کہا ہے بین المسلمین(مسلمانوں کے درمیان ) نہیں کہا اس سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ عدل وانصاف سب کے لئے ہو نا چاہئیے خواہ انصاف طلب کرنے والے مسلمان ہوں یا غیر مسلم ، دوست ہوں یا دشمن ،جان پہچان کے ہوں یا اجنبی ، اصل انصاف یہی ہے کہ وہ شریعت کے دائرے میں ہو اور اس میں کسی کی رو رعایت نہ کی جائے ، اور نہ کسی پر ظلم وتعدی کی جائے ،عدل وانصاف ایک سماجی ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ ایک عبادت بھی ہے ، حدیث شریف میںہے : عدل ساعۃ خیر من ستین سنۃ(الترغیب والترہیب: ۳/۱۱۷) ’’ایک لمحے کا انصاف ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے ‘‘۔
یہ ہے وہ نظام عدل جس کو اپنی زندگی میں رچانے بسانے کی ضرورت ہے شرعی عدالتوں اور دارالقضاء کے بغیر اس نظام عدل سے استفادہ کرنا ممکن نہیں ہے سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں تو اس نظام میں آپ کی ذات گرامی کو کلیدی حیثیت حاصل تھی ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فیصلہ واجب الاطاعت حکم کا درجہ رکھتا تھا ، آپ کے پردہ فرمانے کے بعد حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے دور خلافت میں باقاعدہ اس نظام کا قیام عمل میں آیا اور قاضی مقرر کئے گئے ہندوستان میں مغلیہ حکومت کے دور تک یہ نظام باقی رہا اور مسلمانوں کے مقدمات شرعی عدالتوں میںفیصل ہو تے رہے ، انگریزوں نے ۱۸۶۴ء میں اس نظام کو ختم کر دیا، اس وقت کے دور اندیش علماء نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ انگریزوں کا یہ فیصلہ مستقبل میں مسلمانوں کی اجتماعی دینی زندگی کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گا ، اسی کے پیش نظر علماء کی ایک جماعت نے حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد ؒکی قیادت میں صوبہ بہار کی محدود سطح پر یہ نظام قائم کیا، الحمد للہ یہ نظام آج تک قائم ہے اور اس سے مسلمان اپنے عائلی تنازعات میں بہ طور خاص استفادہ کر رہے ہیں ۔
آل انڈیا مسلم پر سنل لا ء بورڈ نے اب اس نظام کو ملک گیر پیمانے پر وسیع کرنے کا پروگرام بنایا ہے ، بہت سے شہروں اور قصبوںمیں دارالقضاء بن چکے ہیں اور بہت سی جگہوں پر قیام کے لئے جد وجہد کی جا رہی ہے ، مگر اس نظام کی کامیابی کا بہت کچھ انحصار خود مسلمانوں پر ہے کہ وہ اس سے کس حد تک استفادہ کر تے ہیں جہاں تک اس نظام کی افادیت کا سوال ہے اس سے بہتر نظام عدل کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا ، یہ نظام انسانی نفسیات سے بھی قریب ہے اور اس کو آخرت کی جزا وسزا سے مربوط کر کے اسے روحانی بھی بنایا گیا ہے ، اس سے استفادہ کرنا سہل بھی ہے اور یہ کم خرچ بھی ہے، اس وقت ہمارے ملک میں جو نظام عدل ہے وہ آئین کے لچک دار رویّوں ، اور قوت نافذہ کی بددیانتیوں کی وجہ سے مشکلات کی طرف بڑھ رہا ہے غریب اور مجبور آدمی کے لئے اس نظام کے ذریعے انصاف پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ، عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے ، اور کم زور وبے بس لوگ انصاف کی تلاش میں بھٹکتے پھر رہے ہیں ، ان حالات میں شرعی عدالتوں کے قیام سے ملکی عدالتوں کے اوپر سے مقدمات کا بوجھ بھی کم ہو گا ، اور مسلمان بہ طور خاص شریعت اسلامیہ کے مطابق صبر آزما انتظار کے بغیر سستا انصاف پانے میںبھی کامیاب ہوں گے ۔
ہمارے خیال میں ہندوستان جیسے وسیع وعریض ملک میں شرعی عدالتوں کے قیام کی زیادہ ضرورت ہے، کیوں کہ یہاں انصاف کا حصول عدالتی نظام کی پیچیدگیوں کی وجہ سے مشکل سے مشکل تر ہو تا جارہا ہے، مقدمات کے ڈھیر بڑھتے جارہے ہیں بے شمار ملزمین مقدمات کی سماعت نہ ہونے کی وجہ سے جیلوں میں بند ہیں اور بہت سے مجرمین ضمانت حاصل کرکے آزادی کے ساتھ گھوم رہے ہیں، اگر شرعی عدالتیں قائم ہوجائیں اور کم از کم مسلمانوں کے دیوانی معاملات ان کے سپرد ہوجائیں تو ملک کی عدلیہ کو اطمینان کا سانس لینے کا موقع ملے گا، یوں بھی ملک کا آئین شرعی عدالتوں کے لیے سند جواز فراہم کرتا ہے، دستور ہند کی دفعات، ۱۹، ۲۱، ۲۵، ۲۶، کے تحت تمام شہریوں کو اپنی انجمنیں اور ادارے قائم کرنے، اپنے مذہب کی پیروی کرنے اس کی تبلیغ کرنے اور اپنے مذہبی معاملات پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے، یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ حکومت ہند خود بھی عدالتوں کا بوجھ کم کرنا چاہتی ہے۔ ۱۹۹۶ء میں ثالثی اور مفاہمت ایکٹ کے نام سے جوقانون پاس کیا گیا تھا اس کا حاصل بھی یہی ہے کہ ثالثی کو قانونی شکل دی جاسکے، شرعی عدالتیں مسلمانوں کو ان کے مذہبی قوانین کے مطابق زندگی گزار نے میں بھی مدد دیں گی اور عدلیہ کا بوجھ کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوں گی۔
nadimulwajidi@gmail.com