آسام شہریت معاملہ* این آر سی ڈرافٹ کی تاریخ 30؍جولائی تک بڑھی : سپریم کورٹ آسام شہریت معاملہ مخصوص ذات یا مذہب کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ خالص انسانی مسئلہ ہے:مولانا سید ارشدمدنی

نئی دہلی :2؍جولائی
آج سپریم کورٹ میں آسام میں شہریت کے حساس مسئلہ کے دواانتہائی اہم معاملہ کی دو الگ الگ بینچوں میں سماعت ہوئی ، پہلا معاملہ گوہاٹی ہائی کورٹ کے 2؍مئی 2017کے اس فیصلہ کے متعلق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر غیر ملکی ٹریبونل سے کوئی شخص غیر ملکی قراردیا جاتا ہے تو اس کے پورے خاندان کو غیر ملکی مانا جائے گااور ان کے خلاف فارن ٹربیونل میں مقدمہ قائم کیا جائے گا، اس فیصلے کی آڑ لیتے ہوئے این آر سی اسٹیٹ کوآڈینٹر مسٹر پرتیک ہزیلا نے 2؍مئی 2018کو ایک نوٹس جاری کرکے افسران کو یہ ہدایت دی تھی کہ جس کو غیر ملکی قراردیا جاچکا ہے اس کے اہل خانہ یعنی بھائی بہن اور گھر کے دیگر افرادکو بھی غیر ملکی سمجھاجائے اور این آر سی دستاویزات ہونے کے باوجود انہیں اس وقت تک این آر سی میں شامل نہ کیاجائے جب تک کہ غیر ملکیوں کی شناخت سے متعلق ٹریبونل انہیں کلیرنس نہ دیدیتی ہے، حالانکہ اسٹیٹ کوآڈینیٹر کو سپریم کورٹ کی یہ ہدایت تھی کہ جس کے پاس این آر سی کے پروف ہووہ جمع کریں لیکن گوہاٹی ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلے کہ ایک سال بعد بہت خاموشی سے اسٹیٹ کوآڈینٹر نے نوٹس جاری کردیا تھا، قابل ذکر ہے کہ غیر ملکیوں کی شناخت سے متعلق ٹربیونل کے فیصلہ سے تقریبا 92ہزار لوگ غیر ملکی ہونے کے زمرے میں آگئے ہیں اور اگر مذکورہ نوٹس پر عمل ہوتا ہے تو تقریبا گیا رہ سے بارہ لاکھ شہری اس کی زدمیں آسکتے ہیں اس کے خلاف دولوگوں نے شخصی طورپر سپریم کورٹ میں ایس ایل پی داخل کی تھی(نمبر ۱؂ عبدالباطن کھندوکرS.L.P نمبر 20944/18 دوسرا S.L.P نمبر۲؂ KAMALA KHOI TEY PURU KAYASTHY 21959/18، ) صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی کی خاص ہدایت پر جمعیۃعلماء ہند اب اس دوS.L.Pکو دیکھ رہی ہے آج جسٹس ارون مشرا اور جسٹس نوین سنہا بینچ کے سامنے فضیل ایوبی ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اور سینئر ایڈوکیٹ اندراجے سنگھ ، سینئر ایڈوکیٹ سلمان خورشید نے بحث کی اور کہا کہ اس معاملہ کو یا تو موجودہ بینچ سن لے یا رنجن گگوئی والی بینچ کو ٹرانسفرکردے جو پہلے ہی سے این آرسی کی مانیٹرنگ کررہی ہے ، جس پر کورٹ نے یہ کہا کہ ہم اس معاملہ میں آگے نہ بڑھ کر آپ کو اجازت دیتے ہیں کہ اگلے سات دنوں میں چیف جسٹس کے سامنے اپنی یہ بات رکھیں کہ اس معاملہ کو رنجن گگوئی والی بینچ میں بھیج دیں، لہذا کورٹ نے ہماری یہ درخواست مان لی کے وہ خود اس معاملہ کو نہ سنیں بلکہ این آرسی والی بینچ کو ریفر کردیں کورٹ نے یہ بھی کہا کہ چیف جسٹس کو ہی اختیار ہے کہ وہ مقدمہ کی نوعیت کو دیکھ کر بینچ کو بدل دیں لہذا ہمارے آن ریکارڈ وکیل فضیل ایوبی اگلے سات دنوں کے اندرچیف جسٹس کے سامنے مینشنگ کرکے اس مقدمہ کو جناب جسٹس رنجن گگوئی صاحب کی بینچ میں لگانے کی درخواست کریں گے ۔
دوسرا معاملہ دوججوں جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس آر ایف نریمن پر مشتمل این آر سی مانیٹرنگ بینچ کے سامنے پیش ہوا جس میں جمعیۃعلماء ہند کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل اور ایڈوکیٹ سلمان خورشید نے معاملہ کی پیروی کی قابل ذکر ہے کہ ان دوججوں نے اس سے پہلے اسٹیٹ کوآڈیینیٹر پرتیک ہزیلاکو ہدایت دی تھی کہ30؍جون تک این آرسی کی فائنل لسٹ جاری کردی جائے اس کے خلاف جمعیۃعلماء آسام اور آمسونے 28؍جون کو ایک پٹیشن داخل کرکے عدالت پر واضح کیا کہ این آرسی کی فائنل لسٹ کے اجرا 30؍جون کی تاریخ مقررکردی ہے لیکن اسٹیٹ کوآڈینیٹر سپریم کورٹ کے گائیڈلائن پر عمل نہیں کررہے ہیں جس کی وجہ سے یہ خطرہ پیداہوچکا ہے کہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد ہندوستانی ہونے کے باجود این آر سی سے باہر ہوجائے گی ، پٹیشن میں اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ 1951سے لیکر 1971تک کا پورا ڈیٹا شہریوں کو مہیانہیں کرایا گیا بالخصوص ریاست کے چھ اضلاح میں ایسا ہوا ہے بعد ازاں جب لوگوں نے اس کے لئے دباؤ بنایا تو موجودہ سرکارکی طرف سے ریاستی اسمبلی میں کہا گیا کہ ان کے پاس مکمل ڈیٹا نہیں ہے اس کے بعد اسٹیٹ کوآڈینٹر نے یہ کہا کہ اگر لوگوں کے پاس کوئی دستاویز ہے تو وہ این آرسی میں داخل کریں مگر جب لوگ دستاویز لے لے کر پہنچنے لگے تو این آرسی دفتر کے ذمہ داران نے کہا کہ یہ قانونی طورپر درست (لیگلی ویلیڈ نہیں ہے ) پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا کہ اس کی آڑ میں بہت سے شہریوں کو این آرسی سے باہر کیا جارہا ہے کیونکہ این آرسی کے پاس خودڈیٹا نہیں ہے اس لئے وہ دستاویز سے میچ نہیں کرپارہے ہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو آراین نمبر میچ نہ ہونے کی وجہ سے این آرسی سے باہر کیا جارہا ہے جبکہ یہ کوتاہی شہریوں کی نہیں بلکہ افسران کی ہے ،تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ گرام پنچائیت سرٹیفکیٹ کے ویری فکیشن کے لئے جو نوٹس بھیجا جاتا ہے وہ وقت پر نہیں پہنچتا ہے اور بعض اوقات تو مقررہ تاریخ کے بعدلوگوں کو ملتا ہے اس لئے لوگ مقررہ قت پر ویری فکیشن کے لئے نہیں پہنچ پاتے ، چوتھی وجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی گائید لائن کے خلاف 2015 کے بعد کی پنچائت سرٹیفکیٹ کو تسلیم نہیں کیا جارہا ہے بلکہ پنچائیت سرٹیفکیٹ کو ثابت کرنے کے لے جو دستاویز پیش کئے جارہے ہیں اس پر این آرسی کا اصرار ہے کہ یہ 2015سے پہلے کا لیکر آؤ،جبکہ یہ سپریم کورٹ ہی نہیں این آر سی آتھارٹی کی گائیڈ لائن کے بھی خلاف ہے اسی طرح دوسری بہت سی دستاویزات کو سپریم کورٹ اور این آرسی کی گائیڈ لائن کے خلاف مستردکیا جارہا ہے معاملہ کی اہمیت اور حساسیت کو دیکھتے ہوئے صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی کی ہدایت پر 28جون کوسپریم کورٹ میں صوبہ جمعیۃعلماء آسام اور آمسونے اس کے خلاف ایک پٹیشن داخل کی تھی(جس کا نمبر AAMSU . IA No. 86040/2018 ، Jamiat Ulama Assam State IA No. 86047/2018) ان دوججوں کے بینچ کے سامنے جیسے ہی سماعت شروع ہوئی تو سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے کہا کہ جو دودرخواستیں مذکورہ بالا پریشانیوں کے رفع کرنے کے لئے ہم نے دیں ہیں جو این آرسی کی ہدایت سے متعلق ہیں اس پر کورٹ نے کہا ہم نے درخواستوں کو دیکھا ہے اور مطالعہ بھی کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کورٹ نے یہ بھی کہا کہ تفصیل سے صحیح وقت آنے پر سنیں گے جس پر ہماری طرف سے سلمان خورشید اورکپل سبل نے یہ جواب دیا کہ این آرسی سے متعلق جو ہدایات (SOP)کورٹ کی طرف سے پہلے سے جاری کی جاچکی ہیں ان کو صحیح طریقہ سے نافذ نہیں کیا جارہا ہے جس کے نتیجہ میں بہت سے لوگ شہری ہونے کے باوجود این آرسی سے محروم رہ جائیں گے اس پر کورٹ کا یہ کہنا تھا کہ ہم اس پر ضرور غورکریں گے مگر ابھی اس کا وقت نہیں آیا ہے اب کیس کی سنوائی کے لئے اگلی تاریخ 31؍جولائی دی گئی ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ این آرسی کوآڈینیٹرشری پرتیک ہزیلا کی طرف سے یہ درخواست تھی کہ این آرسی کی مدت 30؍جولائی تک بڑھادی جائے جس کو کورٹ نے منظورکرلیا ۔
یادرہے کہ جس قانون کے تحت این آرسی کاکام ہورہا ہے اس کے رول کے اندریہ بات بھی ہے کہ ڈرافٹ این آرسی فائنل این آرسی نہیں ہے ڈرافٹ این آرسی آنے کے بعد جن لوگوں کے نام رہ جائیں گے یا جن لوگوں کے نام غلط شامل ہوجائیں گے ان سارے لوگوں کی کلیم اور آبجکشن کے لئے مزید تین مہنے کا وقفہ پہلے ہی سے دیا گیا ہے لہذاکچھ لوگوں کااگرنام چھوٹ گیا تو ان کے لئے مزید موقع باقی ہے۔
جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے ان دونوں معاملہ کو انتہائی حساس قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ آسام میں آسامی شہریوں کو دربدرکرنے کا این آرسی کی آر میں ایک خطرناک کھیل کھیلاجارہا ہے انہوں نے کہا کہ ریاست کی حقیقی شہریوں کو شہریت کے نام پر جس طرح حراساں اور پریشان کیا جارہا ہے اس کے خلاف جمعیۃعلماء شروع ہی سے قانونی جنگ لڑرہی ہے اور انشاء اللہ آخر تک لڑتی رہے گی انہوں نے مزید کہا کہ یہ متاثرین کے لے زندگی اور موت کا سوال ہے اور اگر انصاف وایمانداری سے کام نہ لیا گیا تو آسام میں ایک بڑا انسانی بحران پیداہوسکتا ہے مولانا مدنی نے آخر میں کہا کہ مجھے امید ہی نہیں پورا یقین ہے کہ عدالت حالات و واوقعات پر غورکرتے ہوئے متاثرین کے حق میں فیصلہ دیگی انہوں ایک بار پھر کہا کہ یہ کسی مخصوص ذات یا مذہب کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ خالص انسانی مسئلہ ہے ۔

فضل الرحمن قاسمی
پریس سکریٹری جمعیۃعلماء ہند
9891961134