کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے بیان داغ دیا کہ” نریندر مودی اورنگ زیب سے زیادہ ظالم ہیں۔ آخر کانگریس کے مسلم رہنماؤں کا ضمیر کب جاگے گا؟
مسلم رہنماؤں کا ضمیر آخر کب جاگے گا اور کب تک وہ منہ میں نپل دبائے خاموش اور بےسود پڑے رہیں گے۔ ایمرجنسی کے پس منظر میں ارون جیٹلی، منوہر پریکر اور دیگر بی جے پی لیڈروں نے اندرا گاندھی کا موازنہ ہٹلر سے کیا تو کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے فوراً بیان داغ دیا کہ” نریندر مودی اورنگزیب سے زیادہ ظالم ہیں۔ اورنگزیب نے تو اپنے باپ کو قید خانے میں ڈال دیا تھا، لیکن آج کے اورنگزیب نے تو پوری جمہوریت کو قید خانے میں ڈال دیا ہے۔” یعنی ان کی نظر میں اورنگزیب ہندوستان میں ظالم بادشاہ گزرا ہے۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ مسلم بادشاہوں میں اورنگزیب عالمگیر کی کوئی برابری نہیں کرسکتا ہے اور اسی لیے مسلمان انہیں رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ رندیپ سنگھ سرجے والا کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان پر کسی بھی کانگریسی مسلم رہنما نے لب کشائی نہیں کی ہے ان کی غیرت کو آخر کیا ہوگیا ہے کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ نریندر مودی کے ظالم ہونے پر ہمارا ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا گواہ ہے۔ کس طرح اس شخص نے گجرات میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی جس کی سسکیاں اب بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہیں اور ان کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد موب لینچینگ ( mob lynchings ) کے ذریعے مسلمانوں کا قتل عام کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے، اس ظالم کا موازنہ اورنگزیب عالمگیر سے کرنا مسلمانوں کو گالی دینے جیسا ہے۔ رندیپ سنگھ سرجے والا تاریخ کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کیجیے آپ بھی اڑیسہ کے سابق گورنر بھشمر ناتھ پانڈے کی طرح اورنگزیب کے گرویدہ ہوجائیں گے۔ اورنگزیب ہندوستان کا ہی نہیں بلکہ برصغیر کا سب سے بڑا بادشاہ ہے۔ وہ صرف اس لحاظ ہی سے بڑا نہیں ہے کہ اس کے قبضہ میں سارا ملک تھا بلکہ اس لحاظ سے بھی کہ اخلاق، عادات، محبت، دیانت، انصاف اور حکومت کی ذمہ داری اور رعایا پروری کے لحاظ سے بھی وہ بےمثل تھا۔ وہ سرکاری آمدنی کو اپنے ذاتی خرچ میں نہیں لاتا تھا کیونکہ وہ رعایا کا مال تھا۔ اورنگزیب انصاف کے معاملہ میں اتنا سخت تھا کہ اس کے سامنے امیر و غریب سب یکساں تھے۔ حد تو یہ ہے کہ اس نے پورے ملک میں اعلان کرادیا تھا کہ اگر کوئی بادشاہ پر مقدمہ چلانا چاہے تو وہ عدالت میں مقدمہ کرسکتا ہے۔ یہ اورنگزیب کا اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اگر اس نے اپنے عہد میں کوئی اور کام نہ بھی کیا ہوتا تو اس کا نام تاریخ میں زندہ رہتا۔ اورنگزیب مغل بادشاہوں میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا تھا۔ حافظ قرآن تھا، تفسیر حدیث اور فقہ سے واقف تھا۔ امام غزالی کی تصانیف اور دوسرے علماء کی کتابیں اکثر پڑھتا رہتا تھا۔ عربی، فارسی، ترکی اور ہندی چاروں زبانوں کا ماہر تھا اور ان میں سے ہر زبان میں گفتگو کرسکتا تھا۔ اورنگزیب اعلیٰ درجہ کا خوش نویس بھی تھا۔ قرآن مجید لکھا کرتا تھا۔ ایک قرآن مجید لکھ کر مدینہ بھجوایا اور ایک مکہ معظمہ بھجوایا۔ اس کے ہاتھ کے لکھے ہوئے قرآن اور سورتیں اب بھی ملتی ہیں۔ اورنگزیب دن رات میں صرف تین گھنٹہ سوتا تھا۔ اس کا بیشتر وقت انتظام ملکی اور عبادت میں گزرتا تھا۔ وہ سلطنت کی ایک ایک بات سے باخبر رہتا تھا۔ نوے( 90 ) سال کی عمر تک جب اس کا انتقال ہوا اس کی محنت اور جفاکشی کا یہ حال تھا کہ لوگ تعجب کرتے تھے اس کی زندگی بڑی سادہ تھی۔ کپڑے بھی سادہ پہنتا تھا اور کھانا بھی سادہ کھاتا تھا۔ اخلاق ایسا تھا کہ ساری زندگی کبھی گندے یا برے الفاظ منہ سے نہیں نکالے وہ اپنا خرچ ٹوپیاں سی کر اور قرآن مجید لکھ کر پورا کرتا تھا۔ اورنگزیب کا دکن کے شہر احمد نگر میں انتقال ہوا اور اورنگ آباد کے پاس خلد آباد میں اس کو دفن کیا گیا، جہاں اس کی قبر اب تک موجود ہے۔ اس کی نعش جب احمد نگر سے اورنگ آباد لے جائی جارہی تھی تو راستہ بھر میں لوگ زاروقطار رو رہے تھے، جیسے وہ ان کا باپ تھا۔ مرنے سے پہلے اس نے وصیت کی کہ ساڑھے چار روپے جو میرے ہاتھ کی محنت کے ہیں اور ٹوپیوں کی سلائی سے بچے ہیں اس میں تہجہیز و تکفین ہو اور آٹھ سو پانچ روپے جو قرآن نویسی کی اجرت سے حاصل ہوئے ہیں، مساکین میں تقسیم کیے جائیں۔ ایک مؤرخ نے لکھا ہے:- ” ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں میں یوں تو علاؤالدین خلجی، فیروز شاہ اور شیر شاہ سوری نے عوامی فلاح و بہبود کے بہت کام کیے مگر ان میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے پیوند لگایا ہوا لباس اس لیے پہنا ہو کہ عوام پر اس کا بوجھ نہ پڑے۔ جس نے روکھی سوکھی روٹی اس لیے کھائی ہوکہ عوام کو دو وقت پیٹ بھر کھانا نصیب ہو۔” ایسے خدمت گزار بادشاہ کا موازنہ ظالم و جابر نریندر مودی سے کرنا پاگلپن نہیں تو کیا ہے۔
کانگریس کے مسلم رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ رندیپ سنگھ سرجے والا سے اپنے بیان پر معافی مانگنے کا مطالبہ کریں اور ان کو کانگریس پارٹی کے ترجمان کے عہدہ سے ہٹانے کا بھی مطالبہ کریں اور کانگریس ہائی کمان پر یہ واضح کر دیں کہ ملک ہر مسئلے پر مسلمانوں کو بیچ میں نہ لائیں اور انہیں تنقید کا نشانہ بنانے سے پرہیز کریں۔
محمد خالد داروگر، دولت نگر، سانتا کروز، ممبئی