• جمعیۃ علمائے ہند کی قومی مجلس عاملہ کا اجلاس مرکزی دفتر دہلی میں منعقد، عالمی و ملکی صورتحال پر تبادلہء خیال
• فروری ۲۰۱۹ء میں ہونے والے صدسالہ کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا، کئی اہم تجاویز پر غور و خوض
• قومی صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری، قومی جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی کے علاوہ جمعیۃ کے دیگر مرکزی قائدین کی شرکت
نئی دہلی۔
جمعیۃ علما ء ہند کی قومی مجلس عاملہ کا اجلا س آج مدنی ہال ، ۱۔بہادر شاہ ظفر مارگ نئی دہلی میں مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری صدر جمعیۃ علماء ہند کے ز یر صدارت منعقد ہوا جس میں بابری مسجد مقدمہ کی موجودہ صورت حال، ملک کی موجودہ فرقہ وارانہ صورت حال اور آسام میں شہریت کا سنگین ہوتا مسئلہ اور فلسطین میں جاری انسانی بحران جیسے اہم بنیادی امور پر غور و خوض کیا گیا۔
جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے مجلس عاملہ کے اجلاس میں ملک کے موجودہ حالات پر تفصیل سے روشنی ڈالی جس کے بعد مجلس عاملہ کے اراکین نے متفقہ طور سے موجودہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مثبت لائحہ عمل مرتب کیے جانے پر زور دیا ، چنانچہ مجلس عاملہ نے طے کیا کہ تشدد کے ماحول پر کنٹر ول کرنے کے لیے مرکزی ، صوبائی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کیا جائے ، اس کے علاوہ مجلس عاملہ نے باہمی منافرت کی ایک اہم وجہ غلط فہمی اورباہمی دوری تصور کرتے ہوئے اس کے ازالہ کے لیے طے کیا کہ اسلامی روداری اور اسلامی اخلاق سے غیر مسلموں کو واقف کرانے کے لیے ہندی ، انگریزی اور علاقائی زبانوں میں لٹریچرفراہم کرایا جائے، باہمی منافرت ختم کرنے کے لیے دستور اساسی کی روشنی میں سماجی خدمات پر توجہ دی جائے ، مسلمانوں میں اسلامی رواداری کی روایات زندہ کرنے کے لیے تقریری و تحریری کام کیا جائے ۔یہ طے پا یا کہ ان تمام امور پر عمل کرنے کے لیے جمعےۃ علماء ہند، جلد صوبائی ذمہ داروں کا اجتماع بھی منعقد کرے گی۔
بابری مسجد اور آسام میں حق شہریت جیسے سلگتے مسائل پر بھی مجلس میں تفصیل سے بات چیت ہوئی ، بابری مسجد مقدمہ کی موجودہ صورت حال پر مولانا محمود مدنی اور مولانا نیاز احمد فاروقی نے تفصیلات پیش کیں۔ مجلس عاملہ نے فیصلہ کیا کہ مقدمہ میں اگر کسی وقت کوئی ضرورت پڑے تو جمعےۃ علماء ہند ہر طرح سے تعاون کرے گی۔ اس کے علاوہ آسام میں حق شہریت کا مسئلہ نہایت ہی سنگین رخ اختیار کرچکا ہے ، اس لیے جمعےۃ علماء ہند نے فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ میں مقدمہ پوری قوت سے لڑا جائے ، واضح ہو کہ جمعےۃ علماء ہند گزشتہ ڈیڑھ سال سے اس سے متعلق سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑرہی ہے اور حال میں اس کے ایک وفد نے صدر جمعےۃ علماء ہند کی قیادت میں این ا یس اے اوروزار ت داخلہ کے ہوم سکریٹری وغیرہ سے ملاقات کرکے این آرسی پروسیس میں غیر ضروری شرائط بڑھائے جانے کے خلاف شکایت بھی کی ہے۔
جمعےۃ علماء ہند کی صد سالہ تقریبا ت سے متعلق ایجنڈے پر گفتگو کرتے ہوئے مولانامحمود مدنی اور مولانا معزالدین نے اس سے متعلق ہونے والی پیش رفت سے مجلس عاملہ کو مطلع کیا ، مجلس عاملہ نے حضرات اکابر پر ہورہے سیمینار کو منظوری دی اور صوبائی و ضلعی سطحوں پر جمعےۃ کانفرنسوں کی تاکید کی ۔
مسئلہ فلسطین پر ایک اہم تجویز میں مجلس عاملہ نے یروشلم میں باضابطہ امریکی سفارت خانہ کے قیام کو عالمی رائے عامہ ، اقوام متحدہ، بین الاقومی قوانین و معاہدوں کی توہین قرار دیا ۔ اس کے علاوہ فلسطین میں عام شہریوں پر بڑھتی اسرائیلی سفاکیت اور مسلسل خون خرابہ وقتل عام پر سخت قلق و اضطراب کا اظہار کیا۔مجلس عاملہ نے مطالبہ کیا کہ امریکی حکومت اپنے امریکی عوام سمیت دنیا بھر میں پیدا شدہ ناراضی اور احتجاج کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا سفارت خانہ بند کرے۔اس سلسلے میں حکومت ہند کے موقف پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے مرکزی سرکار سے مطالبہ ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی ہر محاذ پر اعلانیہ حمایت کرے ،فلسطین اتھارٹی ، عالم عرب اور بااثر بین الاقوامی طاقتیں مشترکہ طور سے اسرائیلی جارحیت ، ناکہ بندی ، جنگی جرائم اور بنیادی وسائل پر ناجائز قبضے کے خلاف بین الاقوامی کریمنل عدالت میں مقدمہ دائرکریں۔مسجد اقصی کا تعلق محض فلسطین سے نہیں ہے بلکہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے ، اس لیے ہم بھارت کے مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے اسفار میں مسجد اقصی کے سفر کو ضرور شامل کریں تاکہ مسجد اقصی سے ہمارے روحانی اور دینی رشتے کا اظہار ہو ۔ جمعیۃ علماء ہند فلسطین کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کے مزعومہ فارمولہ ’’ صدی کی ڈیل ‘‘ کو مستر دکرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ جلد ازجلد فلسطینیوں کو اپنے علاقہ میں خود مختار ریاست قائم کی جائے ۔
مجلس عاملہ نے سعودی عرب میں اصلاحا ت کے نام جاری جدید اقدامات پر بھی غور کیا اور اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو اس سے متعلق تمام مواد حاصل کرے گی، کمیٹی کے ارکان مفتی محمد سلمان منصورپوری، مولانا سلمان بجنوری اور مولانا نیاز احمد فاروقی ہیں۔
اجلاس میں صدر محترم مدظلہ اور ناظم عمومی مدظلہ کے علاوہ مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی صدر جمعیۃ علماء اترپردیش،. مولانا حسیب صدیقی خازن جمعےۃ علماء ہند،شکیل احمدسید ایڈوکیٹ سپریم کورٹ ، مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعےۃ علماء تلنگانہ و آندھرا پردیش، مولانا مفتی محمد سلمان منصور پو ری استاذ حدیث جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد ، مولانا سلمان بجنوری استاذ دارالعلوم دیوبند، مولانا رحمت اللہ میر کشمیری ،مولانا حافظ ندیم صدیقی صدر جمعےۃ علماء مہاراشٹرا ، مولانا مفتی احمد دیولہ گجرات ، مولانا محمد قاسم صدر جمعےۃ علماء بہار، مولانا قاری شوکت علی ویٹ،مولانا محمد رفیق مظاہری صدر جمعیۃ علما ء گجرات،مولانا مفتی جاوید اقبال نائب صدر جمعیۃ علماء بہار، قاری محمد امین صدر جمعےۃ علماء راجستھان ، مولانا محمداسلام قا سمی صدر جمعےۃ اتراکھنڈ ،مولانا مفتی محمدراشد اعظمی استاذ دارالعلوم دیوبند ، ڈاکٹر مسعود احمد اعظمی ، مولانا محمد کلیم اللہ خاں قاسمی ، مفتی حبیب الرحمن مؤ ائمہ الہ آباد، مولانا سید سراج الدین معینی ندوی اجمیر، مولانا محمد عاقل گڑھی دولت ،مولانا علی حسن مظاہر ی ناظم اعلی جمعےۃ علماء پنجاب ، ہریانہ وہماچل ، حاجی محمد ہارون بھوپال، مولانا نیاز احمد فاروقی ایڈوکیٹ ، مفتی عبدالرحمن نوگاواں سادات صدرجمعےۃ علماء امروہہ، مفتی سید محمد عفان منصورپوری ،ڈاکٹر سعید الدین قاسمی ، مولانا عبدالقادر آسام ، مولانا معزالدین احمد ناظم امارت شرعیہ ہند ،مولانا حکیم الدین قاسمی سکریٹری جمعےۃ علماء ہند شریک رہے۔