ڈاکٹر سلیم خان
للن کسی زمانے میں پھلوں کا ٹھیلہ گھمایاکرتا تھا ۔ کئی سال قبل جب وہ ویران سے منگل چوراہے پر آیا تو وہیں کو ہورہا۔ وقت کے ساتھ ٹھیلے کے پہیے غائب ہوگئے اور وہ ایک مستقل دوکان میں تبدیل ہوگیا۔ آس پاس فٹ پاتھ پر اور بھی کئی سبزی والے،انڈے والے ، مرغی والے ، بسکٹ والے، ٹوپی اور خوشبو والے آگئے اس طرح ایک بازارکا ماحول بن گیا جس کے مرکز میں للن کا باکڑہ تھا۔
ایک دن جمن نےللن سے پوچھا کیوں بھائی آج کل دوکان پر سونے لگے ہو خیریت تو ہے؟
نہیں تو ، مجھے دوکان پر سونے کی کیاضرورت ؟ جیسا بھی ہے گھر تو ہے۔
لیکن میں تو ہر روز صبح دفتر جاتے ہوئے ایک آدمی کو تمہاری دوکان پر چادر اوڑھ کر سویا ہوا دیکھتا ہوں ۔
اچھا! حیرت ہے۔ مجھے تو کبھی کوئی نظر نہیں آیا۔
تمہارے دوکان پر جانے سے پہلے چلاجاتا ہوگا اورگھر آنے کے بعد وہاں آکر سوجاتا ہوگا ۔ مجھے تو بھائی للن تمہاری دوکان خطرے میں لگتی ہے ۔
میری دوکان کو کس سے خطرہ ہوسکتا ہے۔ کہیں تمہاری میونسپلٹی ہمارے بازار کو اجاڑنا تو نہیں چاہتی؟
نہیں ،ایسا نہیں ہے۔ میں سوچتا ہوں اگر کسی دن وہ سونے والا واپس جانے کے بجائے دوکان کا مالک بن جائے تو تمہارا کیا ہوگا ؟
للن کے من میں جمن ایک وسوسہ ڈال کر اس کا چین و سکون ساتھ لے گیا۔ دوسرے دن للن بہت سویرے دوکان پر پہنچا تو وہاں کلن محو خواب تھا ۔ اس کو بہت غصہ آیا۔ اس نے کلن کو جھنجھوڑ کر کہا اٹھ نامراد ۔ کیا یہ تیرے باپ کی جگہ ہے؟
کلن کی سمجھ میں پہلے تو کچھ نہیں آیا، پھر وہ خودکو سنبھال کربولا ۔ میرے باپ کی تو نہیں لیکن تیرے باپ کی بھی نہیں ہے۔ فٹ پاتھ سب کا ہے۔
یہ جواب سن کر للن آگ بگولہ ہوگیا ۔ وہ بولا زبان چلاتا ہے ساری دنیا اسے للن کی دوکان کہتی ہے۔ تو اگر کل یہاں نظر آیا تو زندہ جلا دوں گا ۔کیا سمجھا؟
للن کے چلے جانے کے بعد کلن نے سوچا بات تو صحیح ہے۔ یہ دوکان تو دور منگل چوراہا تک للن چوراہا کہلاتا ہے ۔ اسے الٹا جواب نہیں دینا چاہیے تھا۔
للن کو رات بستر پر کلن کا خیال آیاتواس کی نیند اڑ گئی۔وہ بیچارہ آج کہاں ہوگا ؟کلن کے سونے سے آخراسےکیا تکلیف تھی ؟اور اس کی بات بھی غلط نہیں تھی ۔ دوکان بہرحال فٹ پاتھ پر ہے اگر وہ اس پر قابض ہوسکتا ہے تو کوئی اور کیوں نہیں؟ اسے ایسی خطرناک دھمکی نہیں دینی چاہیے تھی۔للن نے ارادہ کیا کہ اگلے دن کلن کو تلاش کرکے سونے کے لیے کہہ دے گا ۔ دوسرے دن علی الصبح للن اپنی دوکان پر گیا تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ کلن وہاں سو رہا تھا ۔ وہ تلاش کی زحمت سے بچ گیا تھا ۔ اس نے آہستہ سے کلن کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
کلن نے دیکھا للن اس کے سامنے کھڑا ہے۔ وہ اٹھ بیٹھا اور بولا للن بھائی معاف کرنا کل میں نے آپ سے بدکلامی کی مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔
للن نے کہا کوئی بات نہیں میں نے بھی تو غلط بات کرخت لہجےمیں کہی تھی۔ اس لیے جو ردعمل ہونا تھا وہی ہو ا۔ تمہاری کوئی غلطی نہیں تھی۔
کلن بولا کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ میں رات میں دوکان پر سونے کا کرایہ دے دیا کروں ؟تاکہ مجھے سکون سے نیند آئے۔
للن نے کہاارے نہیں بھائی میں کون سا کرایہ دیتا ہوں جو تم سے کرایہ وصول کروں ۔ مجھے تو تمہیں پہریداری کا معاوضہ دینا چاہیے۔
کلن کی آنکھیں نم ہوگئیں وہ بولا للن بھائی میں نے سنا توتھا ’کرومہربانی تم اہل زمیں پر، خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر ‘ ۔ لیکن آج عملاً دیکھ لیا ۔