اقبال کے بزدل نقاد ………………. آغا شورش کاشمیری کے بےباک قلم سے

اب اس باب میں دو رائے نہیں ہیں کہ اقبال اس صدی میں ہمارے فکری محسن تھے۔ انہوں نے نہ صرف پاکستان کا تصور مہیا کیا بلکہ ملی انا کو پرورش کیا ، وہ مسلمانوں کی نشاط ثانیہ کے بہت بڑے داعی تھے ۔ وہ مسلمانوں کو ان کی عظمتِ رفتہ یاد دلا دلا کر ایک ایسے اسلامی وفاق کی بنیاد رکھنے کے متمنی تھے، جہاں اسلام کو اپنی صحیح تعلیمات کے تحت جہاں نو پیدا کرنے کا موقع مل سکے ، اس کے لئے انہوں نے اپنی فکر کے شب و روز بسر کئے ، وہ خود کہتے ہیں ؎

اسی کش مکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی ، کبھی پیچ و تاب رازی

یہی وجہ ہے کہ عصر حاضر کے مادی اور دماغی حکماء جنہیں یورپ نے پیدا کیا، ان کے نقدو نظر کی زد سے بچ نہ سکے اور انہوں نے ان کے افکار و خیالات پر اس عظمت کے ساتھ تبصرہ کیا کہ ان کے خفی جلی پہلو نکھر کر سامنے آگئے۔

اقبال کا یہ جرم ایسا ہے کہ ایک خاص جماعت نے جو کمیونزم کی معاشی اور جنسی دلکشیوں پر فریفتہ ہے، اقبال کو اپنے لئے خطرہ محسوس کیا اور جب ان پر یہ امر فاش ہوگیا کہ پاکستان کی نئی پود میں اقبال ان کے ذہنی راستہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو اس جماعت نے اقبال پر تدریجی حملے کئے۔

ادھر اقبال کی ذہنی گرفت بڑھتی گئی، کیونکہ نہ صرف اقبال کے راز دان پیدا ہوتے چلے گئے بلکہ اقبال کے کلام کی شرح و تفسیر مایہ ناز عالموں کے ہاتھوں ہونے لگی، جس سے اقبال کی عظمت کا نقش اور گہرا ہوگیا۔

آج بھی جب ہندوستان کی آب و ہوا مسلمانوں کے لئے سازگار نہیں، علی گڑھ اور عثمانیہ یونیورسٹی میں اس قسم کے اساتذہ موجود ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں اقبال کی ذہنی جدو جہد کو عام کرنے کے لئے وقف کررکھی ہیں۔

مگر اقبال کے بَیری(کمیونسٹ اور ان کے ادبی ہمزلف) اس سے خوفزدہ ہیں، کیونکہ وہ ہندوستان میں عام ہے، ان کا سارا زور پاکستان میں صرف ہورہا ہے۔ ان کی (Cell meetings) میں یہ بات طے ہوتی رہی کہ جس تیزی سے اقبال کا چرچا ہورہا ہے، اسی شدت سے وہ اقبال کو نوجوانوں کے نا پختہ ذہن میں سے نکالیں، چنانچہ اس غرض سے انہوں نے ایک پلان تیار کیا اور اب موقع و محل کی مناسبت سے اقبال کو سبو تاز کرنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔

ان کی بععض تدبیریں ہمارے سامنے ہیں، بعض تیاری کے مرحلے میں ہیں، اور کئی قسم کے مصوروں کے نہاں خانہ دماغ میں محفوظ اسلحہ کے طور پر پڑی ہیں۔ ان لوگوں کا ابتدائی حملہ یہ تھا کہ
اقبال صرف شاعر تھا، اسی کو عام کیاجائے، باقی ان کے عقیدت مند تکلف کرتے ہیں چنانچہ ان کی شاعرانہ نظموں ہی کو اجاگر کیاجاتا رہا۔

دوسرے حملہ میں انہوں نے یہ کیا تھا کہ اقبال کی شخصیت کو مدھم کیاجائے۔ چنانچہ انہوں نے پے در پے نہ صرف اس قسم کے مضمون لکھے بلکہ ادبی مجلسوں اور طلباء کی جماعتوں میں درس دینے شروع کئے کہ اقبال پیغمبر نہیں، کہ اس پر تنقید نہ کی جائے، حالانکہ کسی نے ان کی پیغمبری کا کبھی اعلان نہیں کیا۔ چنانچہ تنقید کے نام تنقیص شروع ہوگئی۔ اور مخالفین اقبال کے اس ریوڑ نے یہ کہنا شروع کیا کہ اقبال کی ذاتی زندگی میں فلاں فلاں رخنہ تھا۔

اقبال نے جو کچھ حاصل کیا وہ فلاں یورپی مصنف، مفکر کا سرقہ ہے، اور یہ ہمیشہ بغیر ثبوت و دلیل کے کہا گیا۔

بالآخر سبو تاژ کی یہ مہم ایک خطرناک موڑ پر آگئی، کئی حلقے وضع ہوگئے، ایک طائفہ اخبار نویسوں میں اقبال پر کرم فرمائی کرنے لگا، ایک ادیبوں میں گلفشانی پر تل گیا، ایک نے شاعروں کے روپ میں نکتہ چینی کی داغ بیل رکھی، کچھ نقاد شیر وچشم ہوگئے، ایک محدود گروہ نے کالجوں میں ڈیرہ ڈالا، غرض ہم اس مہم کے بوٹے بوٹے اور پتے پتے سے آگاہ ہیں مگر یہ پودا نا پختہ نوجوانوں کے ذہنی خون سے سینچا جاتا رہا۔

یہاں ایم۔اے۔اردو میں اقبال کے فکر و فن پر ایک پرچہ ہے، السنہ شرقیہ کی سب سے بڑی سرکاری درسگاہ اورینٹیل کالج میں گورنمنٹ کالج لاہو کے ایک لیکچرار شری محی الدین اثر اس کے استاد ہیں۔ انہوں نے اپنی بو قلموں شہرتوں کے باوجود یہ شیوہ بنالیا تھا کہ اقبال پڑھانے کے بجائے اقبال گھٹانے کا شغل فرمائیں اور تنقید کا نام لے کر تنقیص کریں۔ ہم نے ایک سال بیشتر انہیں ٹوکا تھا۔ ہمیں یقین دلایا گیا تھا کہ آئندہ وہ اس روش سے پرہیز کریں گے۔ ہم نے قلم روک لیا مگر ان کی زبان نہ رکی۔ ہمیں یہاں تک بتایا گیا ہے کہ اس سال جب ان سے یہ پرچہ واپس لیا گیا تو وہ دو ماہ تک روٹھے رہے اور انہوں نے اصرار کیا کہ وہ اقبال ہی پڑھائیں گے۔ چنانچہ فیصلہ کنندگان سپر انداز ہوگئے۔ ہم اس ضد کے منبع سے بھی واقف ہیں۔ بہر حال انہوں نے پہلے ہی دن طلبہ کو یہ دیاکھیان دیا کہ تم نے اقبال کے بارے میں جو صنم خانے اپنے ذہنوں میں بنا رکھے ہیں ، انہیں توڑنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔۔۔۔۔ اور پھر وہ بت شکنی میں منہمک ہوگئے۔

بحوالہ: ہفت روزہ چٹان، 13 فروری 1961ء
ماخوذ: اقبالیاتِ شورش
ترتیب و تدوین: مولانا مشتاق احمد
اشاعت: اکتوبر 2003
ناشر: احرار فاؤنڈیشن لاہور
۔
۔